کشمیر میں یوم آزادی‘ وادی میں اضطراب کی کیفیت

,

   

مکینوں کو بند رکھا گیاہے‘ کلاکار باہر سے ائے ہیں

سری نگر۔ کشمیر میں ریاست کے خصوصی موقف کو برخواست کرنے کے بعد پہلے جشن آزادی منایاگیاتھا جس میں سب کچھ تھا مگر کشمیر میں یہ تھا۔

سری نگر کی سرکاری تقریب میں کشمیر یت کی عدم موجودگی کا احساس ارٹیکل 370میں ترمیم اور حکومت کی جانب سے ”تمام چیزیں بہتر“ ہیں سونچ کے متعلق چیالنج کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کی عکاسی کررہاتھا۔

YouTube video

اس کے علاوہ سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی کی جانب سے جو کہاجارہاتھا کہ مذکورہ ارٹیکل کو ہٹائے جانے کے بعد کوئی بھی فرد میں ترنگا اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا یہ عمل اس بیان سے میل کھاتا دیکھائی دے رہاتھا۔

عام طور پر زیادہ تر کشمیری یوم آزادی اور یوم جمہوریہ تقاریب کے جشن سے اب تک دور رہتے تھے مگر ان تقاریب میں اب مقامی حصہ داری ضروری ہے۔

سابق میں احتجاج کے دوران مذکورہ حکومت ان تقاریب کے لئے طلبہ کو اکٹھا کرتی تھی‘ وہیں لیڈران جو موافق ہندوستان پارٹیاں ہیں وہ بھی اس کی حمایت میں آگے آتے رہے تھے۔

ان میں سے کئی لیڈران بشمول سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی‘ تحویل میں ہیں وہیں مذکورہ لیڈران کبھی دور رہنا نہیں چاہتے تھے۔

سری نگر کی تقریب گاہ میں کچھ بی جے پی لیڈران ضرور دیکھائی دئے جہاں پر گورنر ستیہ پال ملک کے تقریر کی‘ اور ا ن کے ساتھ میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال بھی شہہ نشین پر موجود تھے۔

کچھ سو لوگ پریڈ کا مشاہدہ کرنے کے لئے وہاں پر موجودتھے جس میں زیادہ تر غیرعلاقائی لوگ دیکھائی دے رہے تھے۔ وہاں پر کوئی بھی مقامی اسکول کے بچے اور کلاکار کلچرل تقریب میں دیکھائی نہیں دئے۔

زیادہ تر وی وی ائی پی کی کرسیاں خالی تھیں‘ اور 1990کے دہے میں جب کشمیریوں نے ایسی تقاریب کا بائیکاٹ کیاتھا اسی کا منظر یہاں پر دیکھائی دے رہاتھا۔

تقریب میں موجود بھیڑ کو لبھانے کے لئے حکومت نے جموں او رلداخ سے سکیورٹی دستے اور کلاکار طلب کئے تھے جو ریاست کے باہر سے ائے لو گ تھے۔

ان لوگوں نے پنجابی‘ ڈوگری اور لداخی گیت گائے۔

ایک کشمیرگیت بھی بجایاگیا مگر حصہ دار باہری لوگ تھے۔ حکومت کو شرمندگی سے بچانے کے لئے موقع پر ایک کشمیری بینڈ او رکچھ مقامی عہدیدار موجود تھے۔

کچھ مقامی عورتیں‘تقریب گاہ کے پس پردہ تیاریوں میں جٹی دیکھائی دیں‘ اور مرکزی تقاریب سے وہ دورتھیں‘ اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے اور انہوں نے رپورٹرس سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا۔

پچھلے گیارہ دنوں سے کشمیر پوری طرح بند ہے‘ اگست5کے روز حکومت نے جموں او رکشمیر کا خصوصی درجہ برخواست کردیاہے۔

حکومت کے ترجمان روہت کنسال نے کہاکہ دن بڑے شاندار گذار اور دعوی کیاکہ دیگر اضلاعوں میں بھی تقاریب منائے گئے۔

رابطے کے تمام راستے بند کردئے جانے کی وجہہ سے وادی کے دیر اضلاعوں سے جانکاری حاصل کرنا ناممکن ہوگیاہے۔

اپنی تقریر میں گورنر ملک نے لوگوں کو بھروسہ دلانے کی کوشش میں کہاکہ خصوصی موقف کو ہٹانے کے بعد ان کی شناخت کو ختم نہیں کیاجائے گا۔ اس بات کا خوف پھیلایاجارہا ہے کہ علاقے کی مسلم اکثریت والی پہچان کو حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

ملک نے کہاکہ ”میں جموں او رکشمیر کے لوگوں کو یقین دلاناچاہتاہوں کہ ان کی شناخت خطرہ میں نہیں ہے او رنہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی جائے گی“۔

ملک نے کہاکہ ”دستور ہند نے کئی مقامی شناختوں کو فروغ دینے کی منظوری دی ہے۔ اگر ہم کشمیر سے کنیا کماری جائیں گے تو ہمیں بے شمار زبان‘ تہذیب‘ مذہب او رمعاشرے ملیں گے۔

کسی کو بھی خوف نہیں ہے کہ ان کی شناخت ختم کرنے کا پیمانہ مرکزی حکومت لے کر آرہی ہے“۔

ملک نے کہاکہ نئے انتظام سے تمام لسانی تہذیوں کو کشمیر میں فروغ پانے کی منظوری ملے گی۔ سارا دن ہیلی کاپٹر شہر پر گشت کرتے نظر ائے۔

بیشتر سڑکیں سنسان تھیں وہیں سکیورٹی فورسس کے ہزاروں دستو ں نے سفر او رایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کردی تھی۔

مذکورہ گورنر نے دعوی کیاکہ دہشت گرد گروپ سہمے ہوئے ہیں۔ملک نے کہاکہ ”دہشت گردوں کے گروپ میں بھرتی میں کمی ائی ہے۔

جمعہ کی نماز کے بعد پتھر بازی کے واقعات زیادہ تر بند ہوگئے ہیں۔جو نوجوان گمراہ ہوگئے تھے وہ مرکزدھاری میں واپس لوٹ رہے ہیں“