کشمیر کے عظیم یورو ٹور کے پیچھے ایک غیرمعروف این جی او کاہاتھ

,

   

ویمن ایکو نومک اور سوشیل تھینک ٹینک(ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی)نے یوروپی قانون سازوں کے جموں اور کشمیر میں جاری تحدیدات کے درمیان میں ایک روزدورے کا انتظام کیاہے

نئی دہلی۔ یوروپی این جی اوعالمی سرخیوں میں اسلئے نہیں ائی کیونکہ وہ چیمئن ہونے کا دعوی کرتی ہیں بلکہ اس کیونکہ مذکورہ این جی او نے جاریہ تحدیدات کے بیچ یوروپی اراکین پارلیمنٹ کو جموں اور کشمیر کے دورے کے انتظامات کئے ہیں۔ مذکورہ دورہ کو مدد

ویمن ایکو نومک اور سوشیل تھینک ٹینک(ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی)نے کی ہے جو کو غیر سرکاری قراردیا گیاہے۔

مذکورہ اپو,یشن کانگریس نے سوال کیاہے کہ دورے کرنے والے اور غیرمنافع بخش این جی او کا پس منظر کیاہے۔

اس پارٹی کے ترجمان منیش تیواری نے اچانک ایک ٹوئٹ کیا جس میں لکھا ہے کہ ”یہ یوروپی یونین کے اراکین پارلیمنٹ جنھوں نے جموں او رکشمیر کادورہ کیاہے۔

اس کی حقیقت پسندی بڑی دلچسپ ہے او ریہ پراسرار این جی او‘ ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی کون چلاتا ہے جس کی مدد سے دور ہ او راس کی میزبانی کی گئی ہے۔ کوئی جانکاری ہے؟؟۔ کوئی اندازہ نہیں یہاں پر۔

انڈیاٹوڈے نے حقائق کی جڑتک پہنچانے کاکام کیاہے۔انڈیاٹوڈے کی جانچ میں دستیاب سرکاری ریکارڈس سے اس بات کاپتہ چلا ہے کہ ڈبلیوای ایس ٹی ٹی چھ سال قدیم این جی او ہے۔

مذکورہ غیرمنافع بخش تنظیم کاراجسٹریشن 19ستمبر2013کو سیکشن 4برائے ای یو تھینک ٹینک اینڈ ریسرچ ادارے کے“ زمرے میں ہوا ہے۔

اپنی جانب سے این جی او دعوی کرتی ہے کہ 14ممالک میں اس کی نمائندگی ہے مگر انڈیاٹوڈے کو جانکاری ملی ہے کہ اس بجٹ نہایت کم ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر اپریشن کی انجام دہی کرسکے۔

ای یو کے سرکاری ریکارڈس کے مطابق ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی کو جملہ فنڈس حاصل ہوئے ہیں وہ 24,000یاپھر ایک اندازے کے مطابق کہیں تو 19لاکھ جو پچھلے معاشی سال کے دوران ہیں۔

مذکورہ غیرمنافع بخش ادارے کو سالانہ فنڈایک ہی عطیہ دہندگان سے ملتا ہے۔ ای یو ریکارڈس سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ مذکورہ این جی او ایک کارپوریٹ سوشیل ذمہ داری کی سرگرمیاں یوکے نژاد بزنس کمپنی جسکوماڈی گروپ کہاجاتا ہے وہ انجام دیتی ہے۔

راجسٹریشن کے وقت کو جانکاری داخل کی گئی ہے اس کے مطابق ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی کی بڑی فینانسر کے طور پر ماڈی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

ریکارڈس میں این جی او کے بانی/ڈائرکٹر کی شناخت بھی اسی نام سے ہوئی ہے ماڈی شرما عرف مدھو شرما۔ مذکورہ ویمن ڈائرکٹر جو خود کو عالمی کاروباری بروکر قراردیتی ہے‘ کا اصرار رہتا ہے کہ غیر منافع بخش سے اورکوئی آمدنی نہیں ہے لہذا ”خرچ کم رکھیں اور بجٹ کا بھی کم رکھا جائے“۔

شرما کی سرکاری پروفائیل بتاتی ہے وہ فی الحال ہندوستان اور ساوتھ افریقے کے علاوہ یوروپ بھر میں کاربارواور حکومتوں میں کام کرتی ہیں۔

یوروپین اکنامی اور سوشیل کمیٹی(ای ای ایس سی) کی ویب سائیڈ پر موجودہ ان کی پروفائیل میں لکھا ہے کہ ”وہ ایک کاروباری سفیر برائے ناتہنگم اور کاروباری ماہر برائے ایسٹ میڈلینٹس ہیں“۔

ای یو کے سرکاری ریکاررڈس میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ این جی او کا کوئی بھی رکن یوروپی پارلیمنٹ سے اکریڈیٹ نہیں ہے۔

خواتین کی صنعت کاری میں برسلویس میں مارچ2015کو ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی اور یوروپی یونین کمیشن کے نمائندوں کا آخری اجلاس ہے۔

مذکورہ این جی او نے دعوی کیا ہے کہ اس کے نمائندے اور اراکین مختلف ممالک میں ہے جس میں بلجیم‘ کروشیا‘ فرانس‘ پولینڈ‘ مذکورہ یو کے‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ چین‘انڈیا‘ نیپال‘ پاکستان او رترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔

مگر ریکارڈس سے ظاہر ہے کہ تنظیم کی ٹیم پانچ لوگوں پر مشتمل ہے‘ ان میں سے ایک ہی مکمل وقت دے رہے ہیں ماباقی“ عالمی سطح ہر مختلف حصوں میں رضاکارانہ بنیاد پر کام کررہے ہیں“۔

ان کی اپنی ویب سائیڈ کے مطابق ماڈی گروپ کے کاروبار میں بروکری کرنے والی کمپنی جس کا نام ”131“ ہے‘ جس کے ذریعہ وہ ”عالمی کارپوریٹ کمپنیوں‘ کاروبار سے کاروبار اور حکومتوں کوتعارف‘ خفیہ جانکاری اور تخلیقات کے ذریعہ جوڑتا ہے“۔

کارپوریٹ کی تفصیلات کے مطابق131یوکے لمٹیڈ کو ایک ہندوستانی ڈائرکٹر اعجاز اکبر چلاتے ہیں۔ مذکورہ کمپنی نے اپنی جملہ او رمحفوظ رقم کا جو اعلان کیاتھا وہ 2017میں صرف11,500پاونڈس تھی

۔ اس کمپنی نے دعوی کیا ہے کہ اس کے ذیلی تنظیموں میں ماڈی میگنزیم نامی ادارہ کو ایمپور ٹ او رایکسپورٹ کا کام انجام دیتا ہے وہ بھی شامل ہے۔

یہ گروپ اس کا بھی دعوی کرتا ہے کہ اس کا ایک اور غیرمنافع بخش ادارہ ایکسٹرا اوریڈینری تعلیم ہے۔

سرکاری ریکارڈس دیکھارہے ہیں کہ ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی نے اب تک کسی بھی حکومت سے کوئی فنڈ نہیں لیاہے۔

انڈیا ڈوڈے نے ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی کے ناتہنگم کے راجسٹر پتہ پر پہنچا تاکہ مزید پیدا ہورہے سوالات کا کے جواب حاصل کرسکے‘ مذکورہ غیرمنافع بخش یوکے اور اس کے پڑوس میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھا۔

ایک گھر والا باہر آیااور اس نے کہاکہ کوئی بھی این جی او اس پتہ سے نہیں چلائی جاتی ہے