فیروز آباد میں اپنی اس ’’ ہیں تیار ہم‘‘ ریالی میں شیو پال نے کہاکہ صرف ایس پی کوفائدہ پہنچانے والے جن لوگوں کونکال دیا گیا تھا اور اب انہیں بی جے پی کی ’’ بی پارٹی‘‘ بن جانے کا مورد الزام ٹہرایاجارہا ہے
لکھنو۔ یوپی الیکشن کے وقت ہی سماج وادی پارٹی کاایک حصہ الگ ہوگیاتھا۔ پارٹی کی کمان اکھیلیش یادو کے ہاتھ میں چلی گئی اور شیوپال اور ملائم سنگھ یادو پارٹی سے الگ ہوگئے تھے۔ ان سب کے باوجود چاچا شیو پال اور بھتیجے اکھیلیش کی رشتوں میں اتنی کشیدگی نہیں تھی ۔
لیکن اب لگتا ہے یہ کشیدگی بڑھ گئی ہے۔اتوار کے روز پرگتی شیل سماج وادی پارٹی ( لوہیا) کے صدر شیوپال یادونے خاندانی رشتوں کے جذبات کو الگ رکھ کر سیدھے طورپر سیاسی لڑائی کا اعلان کردیا۔ انڈین ایکسپریس میں شائع خبر کے مطابق شیوپال یادو نے کہاکہ وہ فیروز آباد پارلیمانی حلقے سے الیکشن لڑیں گے ۔
انہوں نے کہاکہ اب کسی کو چاچا او ربھیتجے کے نظریہ سے نہیں دیکھنا ‘ صرف اپنے مخالف کی شکل میں دیکھنا ہے۔فیروز آباد سیٹ پر سابق میں ایس پی کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کے بیٹے اکشے یادو امید وار ہیں۔
اپنے حلقے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اکشے نے کہاکہ شیوپال کے الیکشن لڑنے سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔
شیوپال بی جے پی کے مہرے بن گئے ہیں۔ جہاں پر صفائی دیکھتی ہے وہاں ’’ کچرہ پھیلانے ‘‘ پہنچ جاتے ہیں۔شیوپال نے کہاکہ اب میں نے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے تو کوئی چاچا ‘ بھتیجہ نہیں ہے ۔
ہم صرف مخالفین ہیں۔ اب مجھے بھائی یا بھتیجہ یا خاندان پر بات کرنا نہیں ہے ‘ بلکہ کسانوں اور طلبہ کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ ملک او رسیاست کس طرح ترقی کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ وہ بی جے پی سرکاری کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں اور ’’ یکساں ذہنیت والی موافق مذہب پارٹیوں ‘ کے ساتھ اتحاد کے لئے بھی تیار ہیں۔
اپنے بھائی اور ایس پی کے بانی ملائم سنگھ یادو کے متعلق بات کرتے ہوئے شیو پال نے کہاکہ بھلے ہی ملائم سنگھ یادو نے ان کے پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے سے انکا ر کردیاہوں لیکن وہ جہاں سے بھی الیکشن لڑیں گے ان کا ساتھ دیں اور انہیں جتائیں گے۔
مجھے لگتا ہے کہ سماج وادی پارٹی جس حالت میں تھی ‘ جس بلندی پر تھی ‘ اس کے بارے میں سونچیں۔ ہم نے ہمیشہ نیتا جی کا احترام کیاہے 47سے 236اراکین اسمبلی تک کیسے پہنچے اور آگے بھی ان کااحترام کرتے رہیں گے۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔
میں نے کبھی نہیں سونچا تھا کہ نیتا جی کے ہونے کے باوجود ہمارا خاندان اس قدر بکھر جائے گا۔آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے لکھنو میں وعدہ کیاتھا کہ جب تک اکھیلیش ہونگے تب تک میں چیف منسٹر نہیں بنوں گا۔
میں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر نیتا جی اور بزرگوں کا احترام کیاجاتا ہے تو مجھے ٹکٹ نہیں دینا۔ میں تب بھی اپنے حریفوں کوجیت دلاؤں گا۔ مگر توہین برداشت کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔