کوروناوائرس اور ہندوستان کی کثیرآبادی

   

کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آسان نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
کوروناوائرس اور ہندوستان کی کثیرآبادی
ہندوستان میں لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں ہی مزدور، غریب اور بے سہارا لوگ پریشان ہورہے ہیں۔ حکومت نے 21 دن کے لاک ڈاؤن کا بغیر کسی منصوبہ کے اعلان کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سب سے پہلے لاک ڈاؤن سے اولین طور پر متاثر ہونے والے طبقہ کے بارے میں ہنگامی منصوبہ تیار کرتی مالیاتی امداد کے علاوہ رہنے کیلئے آسرا فراہم کیا جاتا۔ لیکن مودی حکومت نے 21 دن کا لاک ڈاؤن کرکے کروڑہا غریب عوام کو کئی مسائل میں مبتلاء کردیا۔ لاک ڈاؤن نے غریبوں کو ہی نہیں بلکہ تمام مالیاتی اداروں کو بھی غریب کردیا ہے۔ اب ہر کوئی حکومت سے مالیاتی پیاکیج کا منتظر ہے۔ مارکٹ میں رہنے والے چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی مدد کرنے کارپوریٹ گھرانے میں اپنی ضرورتوں کو حکومت کی امداد سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کا مالیاتی پیاکیج کیا ہونا چاہئے یہ سوال اہم ہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کے چار دن بعد غریبوں، مزدوروں کیلئے مالیاتی پیاکیج کا اعلان کیا اور اس میں بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کو فائدہ ہوگا جبکہ کروڑہا ایسے مزدور بھی ہیں جن کا نام رجسٹرڈ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ روزانہ کی مزدوری پر کام کرتے ہیں۔ حکومت خاص کر وزارت فینانس نے لاک ڈاؤن سے پہلے کی تیاری کچھ نہیں کی نتیجہ میں آنے والے دنوں میں ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں بحران ہی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ آر بی آئی نے مالیاتی مارکٹ میں مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے لیکن وہ بھی کب تک خیر منائے گا۔ حکومت کو ایک طرف کوروناوائرس سے نمٹنے کیلئے بھاری رقومات خرچ کرنے ہوں گے تو دوسری طرف مالیاتی راحت دینے کیلئے سرکاری خزانہ کا منہ کھول دینا پڑے گا۔ اصل میں سرکاری خزانہ خالی ہوتو یہ مالیاتی راحت کا تصور ہی گراں گذرے گا۔ کوروناوائرس سے ہونے والی اموات نے انسانی اذہان و قلوب کو بڑے پیمانہ پر متاثر کیا ہے۔ حکومتیں پریشان ہیں لیکن جن ملکوں نے بہت پہلے تیاری کرلی تھی انہیں زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی لیکن ہندوستان جیسے کثیرآبادی والے ملک کیلئے کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ کوروناوائرس چین سے نکلا۔ چین کے جس شہر میں اس وائرس کا مبدا پایا گیا۔ وہ ووہان شہر ہے جہاں کی آبادی 1.1 کروڑ ہے جبکہ اس شہر کا رقبہ 8500 کیلو میٹر ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں ممبئی کا رقبہ صرف 600 کیلو میٹر ہے اور یہاں کی آبادی 2.2 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ہندوستان کے ایسے کئی شہر ہیں جہاں کا رقبہ کم آبادی زیادہ ہے۔ چین کے شہر ووہان کا وسیع تر علاقہ ہونے اور سماجی دوری کے ساتھ بنائے گئے مکانات کے باوجود کوروناوائرس سے سب سے زیادہ اس شہر کے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں کوروناوائرس کا سب سے زیادہ اثر مہاراشٹرا میں دیکھا گیا۔ ممبئی اپنے رقبہ کے اعتبار سے بہت کم ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ شہر ایک گنجان آبادی رکھتا ہے اور یہاں وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ حکومت نے یہاں کئی احتیاطی اقدامات کئے ہیں لیکن وائرس کو روکنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی ترکیب یا آلہ نہیں ہے۔ ہندوستان میں وائرس سے متاثرین کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال برقرار رہی تو ملک میں غیرمعمولی ہیجان برپا ہوجائے گا۔ دنیا بھر میں اس موذی مرض سے مرنے والوں کی تعداد 28000 ہوگئی ہے تو ہندوستان میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ عوام گھروں میں بند ہیں اور وائرس کے خلاف لڑائی میں تعاون کررہے ہیں لیکن جب کسی ملک کی حکومت بروقت تیاری کرنے سے قاصر ہوتو اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اٹلی کے عوام آج اس خسارہ کا شکار ہیں۔ اس ملک کا سربراہ اپنے عوام کو کورونا سے بچانے سے قاصر ہوکر آسمان کی طرف التجائی نگاہوں سے روتے ہوئے دعا کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس وبا نے ساری دنیا کے ممالک کو یہ سوچنے کا موقع دیا ہیکہ آخر اس وبا کے پھوٹ پڑنے کی وجہ کیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی کوروناوائرس کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ اس وائرس نے ابھی برصغیر میں شدت پیدا نہیں کی ہے۔ حکومت نے حالات کے مزید بگڑنے سے پہلے ہی لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کرکے درست فیصلہ کیا تھا۔ اب عوام کو اس لاک ڈاؤن کی حمایت کرنی چاہئے اور مزدوروں، غریبوں کو اپنے طور پر مالی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
گورنر آر بی آئی کے اقدامات
کوروناوائرس نے ہندوستانی صنعت کو خطرہ کے نشان تک پہنچا دیا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے مالیاتی اقدامات ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کی کوشش کا حصہ ہیں لیکن اس سے اصل خسارہ دور نہیں ہوسکے گا۔ عوام کو راحت پہنچانے کی غرض سے کئے جانے والے اقدامات اور رعایتی فیصلوں سے کچھ ریلیف تو ملے گی۔ گورنر آر بی آئی شکتی کانتاداس نے کہا کہ آر بی آئی کی اولین توجہ مالی استحکام پر ہے۔ کوروناوائرس کی وجہ سے ملک میں 21 دن کا لاک ڈاؤن ہے اس سے معیشت کا متاثر ہونا بھی یقینی ہے۔ اس لئے آر بی آئی نے شرح سود میں کمی کا اعلان کیا۔ ریپوریٹ کو 0.75 فیصد کم کرکے 4.40 فیصد کردیا گیا۔ آر بی آئی کی کوشش یہ ہیکہ لاک ڈاؤن سے عوام پر بھاری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ عام آدمی کو راحت ملتی ہے تو یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ بینک اپنے صارفین کی ای ایم آئی کو کم کرنے کیلئے فیصلہ کرتے ہیں تو قرض حاصل کرنے والے کو ای ایم آئی کی قسطوں کی ادائیگی میں سہولت حاصل کرسکیں گے۔ ادائیگیاں تو بہرحال ہوتی ہی ہیں۔ اگر آر بی آئی نے ادائیگیوں کے سلسلہ میں کچھ راحت فراہم کی ہے تو اس پر شرح سود میں بھی خاطرخواہ کمی کردیتا تو یہ ملک سے قرض لینے والوں کیلئے بڑی راحت ہوتی۔ گھر، کار یا دیگر قسم کے قرض لینے والے افراد کو ریپوریٹ میں کمی کا فائدہ تو مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے کچھ مزید راحت کے اقدامات کئے جائیں اور حکومت کی طرف سے بھی ٹھوس اعلانات کی توقع کی جارہی ہے۔ 3 اپریل کو آر بی آئی کی جانب سے کریڈٹ پالیسی کا بھی اعلان ہونے جارہا تھا۔ اب کوروناوائرس نے آر بی آئی کے رویہ کو بھی نرم کرنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔