کوروناوائرس:’ بس نام رہے گا اللہ کا!‘

   

ظفر آغا
’’کر لو دنیا مٹھی میں!‘‘ یاد ہے ریلائنس گروپ کا یہ مشہور اشتہار۔ جب ریلائنس امبانی گروپ نے پہلی بار اپنا موبائل فون لانچ کیا تو اس کے لیے انھوں نے یہ ’مارکیٹنگ سلوگن‘ اختیار کیا جو سارے ملک میں فون کے ساتھ ساتھ چھا گیا۔ بات بھی کچھ ایسی بیجا نہ تھی۔ آج کے اسمارٹ فون نے واقعی دنیا انسان کی مٹھی میں قید کر دی ہے۔ آپ بیٹھے بیٹھے ایک سیکنڈ کے وقفے میں امریکہ واٹس ایپ کے ذریعہ جو بات بھیجنا چاہیں بھیج دیجیے۔ اور اسی فون سے مفت جدہ، کراچی یا ممبئی جہاں چاہیے مفت بات کیجیے۔ اور تو اور سیکنڈوں میں اپنے گھر میں ہونے والی شادی کا ویڈیو بنائیے یا دلہا صاحب کے ساتھ اپنی سیلفی لیجیے اور بھیج دیجیے۔ ویڈیو چیٹ کا مزہ لیجیے۔ اور تو اور اگر آپ کو صحافی بننے کا شوق ہے تو جناب یو ٹیوب پر اپنا چینل مفت چلائیے۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر جو تصویر چاہیے وہ پوسٹ کیجیے۔ الغرض اس اسمارٹ فون ٹیکنالوجی نے دنیا کی تمام سرحدیں توڑ دیں اور دیکھتے دیکھتے دنیا واقعی انسان کی مٹھی میں قید ہو گئی۔ ساری دنیا ایک دوسرے سے اس قدر گھل مل گئی کہ پورا عالم ایک بازار ہو کر رہ گیا۔ اور اس بازار میں امریکہ کا مال چین، چین کا مال یورپ اور دنیا بھر میں گلی گلی ایسے بکنے لگا جیسے کبھی دہلی میں قرول باغ کا بنا جعلی مال ہندوستان میں گلی گلی بکتا تھا۔

یہ سائنس کا کمال تھا کہ جس نے ٹیکنالوجی کو اس عروج پر پہنچا دیا کہ دنیا کی سرحدیں بے معنی ہو گئیں اور انسانیت کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اس نے پوری قدرت کو اپنی مٹھی میں کر لیا۔ یہ احساس ایسا کوئی بہت غلط بھی نہیں تھا۔ کیونکہ کبھی جنگلوں میں ننگا پھرنے والے انسان نے دیکھتے دیکھتے جنگلوں کو اپنے قبضے میں ایسا لیا کہ جنگل ہی ختم ہونے کی کگار پر پہنچ گئے۔ پھر پانی سے بجلی بنا کر انسان نے ایک ایسا انقلاب بپا کر دیا کہ دنیا ہی بدل گئی۔ بجلی کے کاندھوں پر سوار انڈسٹریل انقلاب نے ایک نئی تہذیب پیدا کی جس کی سیاست، معیشت اور نظام تعلیم سب بالکل جدا تھا۔ وہ قدرت جو کل تک انسانوں پر حاوی تھی اب وہی انسان قدرت کے نظام کو توڑ کر آہستہ آہستہ قدرت پر حاوی ہونے لگا۔ مثلاً نصف انیسویں صدی تک انسان ہوائی سفر کا تصور اللہ دین کے چراغ کے ذریعہ محض کہانی قصوں میں ہی کر سکتا تھا۔ مگر اسی انسان نے جلد ہی نیوٹن کے قوانین کو توڑ کر ہوائی جہازوں کے ذریعہ ہواؤں میں پرواز شروع کر دی۔ اب یہ عالم ہے کہ چاند کیا انسان مریخ پر جانے کی تیاری میں ہے۔ اپنے تحفظ کے لیے اسی انسان نے ایٹم اور نیوکلیئر اور نہ جانے کیسے کیسے ہتھیار بنائے۔

ظاہر ہے کہ یہ سب سائنس و ٹیکنالوجی کا کمال تھا۔ اور انسان کو واقعی یہ محسوس ہونے لگا کہ اب تو قدرت اس کی مٹھی میں ہے۔ اور اکیسویں صدی آتے آتے تو انسان اس قدر ترقی یافتہ ہو چکا تھا کہ اس نے موت کو ٹالنے پر ریسرچ شروع کر دی۔ ابھی بھی وہ موت کے آگے لاچار تو ضرور ہے مگر اس نے اپنی ایوریج مدت حیات ضرور بڑھا لی ہے۔ ایسے میں اگر انسان اس مغالطے میں آنے لگا کہ اب قدرت پر وہ حاوی ہو گیا ہے تو یہ مغالطہ گویا بیجا نہ سمجھا جائے گا۔ لیکن یہ خیال ہی اپنے میں انسان کی سب سے بڑی بھول ہے۔ آپ کچھ کر لیجیے، قدرت آپ سے بلند و بالا تھی اور رہے گی۔ اور انسان اس کو کبھی اپنی مٹھی میں قید نہیں کر سکتا ہے۔ اب دیکھیے نہ ایک ادنیٰ سے وائرس جس کو کورونا کہا جا رہا ہے، اس نے پوری انسانیت کو ایک ایسی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے کہ جہاں سوائے دعا کے اس کے پاس کوئی چارا نہیں۔ اس وقت تمام عالم پر کورونا کی وہ وحشت طاری ہے کہ جس کا تصور بھی یہ ترقی پذیر انسان نہیں کر سکتا تھا۔ انسان کی تمام سائنسی و ٹیکنالوجیکل ایجادات، انڈسٹریل انقلاب، اس کا صدیوں میں اکٹھا کردہ علم، اس کی معاشی، سیاسی اور ہر طرح کا نظام اس ایک وائرس کے آگے لاچار ہے۔ وہ انسان جو کل تک قدرت کو مٹھی میں بند کر گھوم رہا تھا، آج وہی انسان قدرت کے آگے لاچار ہے۔ اس کے بڑے بڑے اسپتال، اس کی وہ میڈیسن اور سرجری کی بے پناہ چھلانگ اور وہ تمام ترقی اس وقت بے اثر اور بے معنی ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اٹلی کے ایک شہر میں دولت مند افراد کے علاقے میں اسپتالوں نے یہ فیصلہ لیا کہ اگر 80 سال سے زیادہ عمر کے مریض کورونا وائرس کے علاج کے لیے آتے ہیں تو وہ ان کو اسپتال میں بھرتی نہیں کریں گے۔ یعنی ان کے اسپتالوں میں اتنا ساز و سامان نہیں تھا کہ وہ مریض کا علاج کر سکیں۔ لہٰذا یہ فیصلہ لیا کہ اگر بوڑھے کورونا وائرس سے مرتے ہیں تو مرنے دو۔ ایسی ہی خبریں چین سے بھی موصول ہوئیں۔ ذرا غور فرمائیے، اٹلی یورپ کا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ لیکن ایک معمولی سے وائرس کے خوف سے دونوں ملک ’لاک ڈاؤن‘ ہیں۔ ارے دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ بھی اس ایک وائرس سے پناہ مانگ رہا ہے۔ اب پورا یورپ اور امریکہ اور کیا پتہ اس مضمون کے چھپتے چھپتے خود ہندوستان کے بیشتر علاقے لاک ڈاؤن ہو جائیں۔ وہ امریکہ جو اپنے مہلک ہتھیاروں سے ساری دنیا کو منٹوں میں ختم کر سکتا ہے، اسی امریکہ کے باشندوں کے لیے اب روزمرہ کے کھانے پینے کی اشیاء کا قحط ہو رہا ہے۔ اور یہ سب صرف ایک معمولی وائرس کا کمال ہے۔

ارے صاحب، اس وقت امریکہ کیا پوری انسانیت اس کورونا وائرس کے آگے بے یار و مددگار ہے۔ کیونکہ یہ محض ایک بیماری نہیں ہے بلکہ اس نے تو دنیا کا تمام معاشی نظام ہی درہم برہم کر دیا ہے۔ دنیا کی ہر صنعت و حرفت، ہر کمپنی، ہر دکان اور ہر طرح کی معیشت کو کتنا نقصان اور تباہی اٹھانی پڑے گی اس کا کوئی ابھی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا ہے۔ اگر کل کو محض ہوائی سفر کی پوری کمپنیاں دو چار ماہ کے لیے بند ہو گئیں تو ساری دنیا میں کئی کروڑ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ ہوٹل، ریستوران اور ٹورزم پر جو لاک ڈاؤن ہے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سنیما ہال، چمکتے دمکتے مال، دنیا بھر کے ایونٹ، پوری کی پوری فلم انڈسٹری، اسکول، کالج، کرکٹ کا آئی پی ایل میچ، ارے سب کچھ ٹھپ۔ ارے ایپل اور امیزن جیسی عالمی کمپنیاں بند یا گھر سے کام کرو۔ اور تو اور کل کو پورے پورے سرکاری دفاتر بند۔ کورٹ کچہری میں محض امرجنسی کام کے سوا ہر کام بند۔ جب سب بند تو بینکوں سے مال قرض لے لے کر چلنے والی بڑی بڑی کمپنیاں کل کو ڈوبیں گی۔ کمپنیاں ڈوبیں گی تو بینک ڈوبے گا، ارے صاحب یہ ہونے کیا والا ہے!
خیر یہ تو بڑے بڑے امریکہ، اٹلی اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک کا حال ہے۔ اب ذرا سوچیے ہندوستان کے غریبوں کا کیا حال ہوگا۔ وہ خونچے والا اور پٹری والا جو ہمارے اور آپ کے گھر سے باہر نکلنے پر سامان بیچتا ہے، وہ اس لاک ڈاؤن میں کس کو کیا بیچے گا۔ پھر رکشہ والا، آٹو والا، ٹیکسی ڈرائیور جیسے درجنوں اس طرح کا کام کرنے والے جو روز کنواں کھود کر کام کرتے ہیں وہ آخر کہاں جائیں گے۔ ارے ان کو تو بھیک بھی میسر نہیں ہوگی۔ کوئی باہر نکلے تب ہی تو بھیک دے گا۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اس مضمون کے لکھے جاتے وقت تک دہلی میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں تھا، مگر پھر بھی سڑکوں پر ہْو کا عالم تھا۔ ایسے میں لوگ بنگال کے قحط کی طرح سڑکوں پر بے موت بھوکے مریں گے اور کیا پتہ کل کو ملک میں مار کاٹ پھیل جائے۔

یہ ہے جناب قدرت کا ایک معمولی سا وائرس جس کو ہم اور آپ کورونا کہہ رہے ہیں، سال ڈیڑھ سال میں اس کا علاج بھی دریافت ہو جائے گا لیکن ابھی اس کی طاقت کا عالم یہ ہے کہ اس کے آگے کیا ٹرمپ، کیا جن پنگ ، کیا پوتن اور کیا مودی بڑے بڑے سورما لاچار ہیں۔ وہ دنیا کی بے پناہ دولت وہ تمام سائنس کی ترقی، وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی سیکورٹی اور ہر قسم کا نظام سب لاچار ہے۔ اس بے پناہ اندھیرے اور ناامیدی میں اگر امید کی کوئی کرن ہے تو بس صرف یہ کہ وہ انسان جس نے کل تک اپنے کو امیر غریب، گورے کالے، مذہب، زبان، تہذیب اور نہ جانے کتنے خانوں میں بانٹ لیا تھا وہ ان تمام دیواروں کو گرا کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس بلائے ناگہانی سے بچنے کا راستہ تلاش کرے۔ مگر اس کے لیے سب سے پہلے یہ لازمی ہے کہ وہ ٹرمپ اور مودی جیسوں کی نفرت کی سیاست سے پناہ مانگے۔ ورنہ انسان کیا انسانیت ہی کل ختم ہو جائے تو کیا پتہ۔ اور پھر بس جو بچے گا وہ ہوگی قدرت یا یوں کہیے کہ ’بس نام رہے گا اللہ کا!‘