کورونا سے نمٹنے نامعقول طریقوں کا استعمال حکمراں طبقہ کا مقبول رجحان

   

رام پنیانی
کووڈ ۔ 19 وباء کے پھوٹ پڑنے کے بعد اس کے علاج کے جن لوگوں نے سب سے پہلے دعوے کئے، ان میں بابا رام دیو بھی شامل ہیں۔ بابا رام دیو ایک سرفہرست بابا ہیں، ساتھ ہی حکمراں جماعت سے ان کے قریبی اور گہرے تعلقات ہیں۔ رام دیو نے اپنی یوگا کسرت کے باعث شہرت حاصل کی اور پھر ادویات کی تیاری وغیرہ کے شعبہ میں قسمت آزمائی کی۔ بابا رام دیو نے جو ادویات تیار کی ہیں، گائے کی مصنوعات (گوبر، گاؤ موتر) بھی شامل ہیں۔ آج ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کا شمار ملک کے سرفہرست صنعت کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی کمپنی نے اپنی ادویات اور دوسری اشیاء فروخت کرتے ہوئے اربوں روپئے کمائے ہیں۔ رام دیو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے گرو سے یوگا سیکھا، ان کے ساتھی آچاریہ بالکرشن وہ واحد شخص ہیں، جو پتن جلی انٹرپرائز میں ان کے شراکت دار ہیں۔ فی الوقت پتن جلی آیوروید ادویات تیار کرنے والی سرفہرست دوا ساز کمپنی بن گئی ہے۔ ویسے بھی رام دیو اور بالکرشن کی باقاعدہ و رسمی تعلیم کے بارے میں کوئی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں۔
جس وقت رام دیو نے پتن جلی کی تیار کردہ دوا ’’کرونل‘‘ لانچ کی تھی، تمام کی توجہ اس جانب مرکوز ہوگئی تھی کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ کرونل سے کورونا کا کامیاب علاج کیا جاسکتا ہے۔ ابتداء میں رام دیو نے یہ بھی دعویٰ کردیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی کرونل کے استعمال کی منظوری دے دی ہے، لیکن بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کرونل دراصل عالمی ادارہ صحت کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق بنائی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کس بناء پر رام دیو نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی منظوری کا دعویٰ کیا اور پھر اس دعویٰ سے منحرف ہوگئے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کرونل کو عالمی ادارہ صحت کی کسی نہ کسی طرح منظوری حاصل ہے۔ رام دیو نے مذکورہ دعوے ہی نہیں کئے، بلکہ کرونل کو موثر ثابت کرنے کیلئے ایک جائزہ کا حوالہ بھی دیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ کرونل کے استعمال کے اندرون 7 یوم کورونا سے متاثرہ لوگ صحت یاب ہوجائیں گے۔ بعد میں کرونل کے موثر ہونے کے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے عملی مظاہرہ بھی پیش کیا گیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کرونل کی لانچ کی تقریب میں دو مرکزی وزراء بھی شریک تھے جس میں ہمارے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن بھی شامل ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران اس مہلک بیماری کے علاج کے بارے میں کئی دعوے سامنے آئے۔ وزارت ایوش نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ تل کا تیل ؍ کھوپرے کا تیل ؍ گائے کا گھی اپنے ناک کے نتھنوں میں لگائیں۔ بعض افراد بھانپ لینے کے آئیڈیا کے ساتھ سامنے آئے۔ مالیگاؤں بم دھماکے کی ملزمہ اور بھوپال سے بی جے پی رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے اس دوران دعویٰ کیا کہ گائے کا پیشاب پینے سے ہی وہ کورونا سے محفوظ ہیں۔
مدھیہ پردیش میں جہاں بی جے پی حکومت ہے، وہاں کی وزیر تہذیبی اُمور اوشا ٹھاکر کا دعویٰ ہے کہ ہون کرنے سے ہم کورونا وائرس جیسی بیماری سے محفوظ رہیں گے۔ ’’ہون‘‘ دراصل آگ کی پوجا ہے۔ اسی طرح سوامی چکرا پانی مہاراج نے عوام میں گائے کے پیشاب کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی خاطر اور خاص طور پر جسم پر گوبر لیپنے کو عام کرنے کیلئے ’’گاؤ مترا پارٹی‘‘ کا اہتمام کیا۔ اسی طرح کی پریکٹس یا کام گجرات کے سادھوؤں کے ایک گروپ نے بھی کیا ہے، تاہم اس طرح کی حرکتیں اُس وقت نقطۂ عروج پر پہنچ گئی جب چیف منسٹر اُتراکھنڈ جنہوں نے مہاکمبھ میں حصہ لینے کیلئے لوگوں کو مدعو کیا تھا، یہ بات کہی کہ دریائے گنگا کی روحانی طاقتیں کورونا سے ہماری حفاظت کریں گی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کی تعداد لوگ مہاکمبھ میلہ میں شرکت کیلئے آئے اور اس دوران ایک کثیر تعداد میں سادھو اپنی زندگی سے محروم ہوگئے اور پھر بے شمار سادھو کورونا سے متاثر ہوکر اس مہلک وباء کو اپنے اپنے علاقوں میں پھیلانے کا باعث بنے۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے نظریات کو ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بڑھاوا دیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپریل میں شام 5 بجے 5 منٹ کیلئے تھالیاں بجانے کی اپیل کی اور پھر 9 بجے 9 منٹ کیلئے شمعیں (موم بتیاں ؍ دِیا) روشن کی درخواست کی۔ ایک اور بی جے پی قائد سنکیشور نے حال ہی میں ایک پریس میٹ سے خطاب کرتے ہوئے کورونا سے بچنے کیلئے ایک منفرد طریقہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ لیمو کا شربت ناک کے نتھنوں میں ڈالنے سے آکسیجن کی سطح 80% تک بڑھ سکتی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ دراصل تقریباً 200 عزیز و اقارب کی جانب سے اس طریقہ کو آزمانے کے بعد جو مشاہدہ کیا گیا، اس پر مبنی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ جو کچھ رجحان چل رہا ہے، وہ دراصل بیان جاری کئے جانے کی سیاست کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کے رجحان یا گاؤ موتر اور گوبر کے کورونا علاج میں استعمال کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔ سائنس دراصل وہ علم ہے جس میں پوری طرح تحقیق کرکے کسی بھی چیز کا ایک طریقہ منظر عام پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں کئی آزمائشی مرحلے بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں گاؤموتر یا گوبر اور دوسری عجیب و غریب چیزوں کے بارے میں جو بیانات منظر عام پر آرہے ہیں، اور جو اقدامات کئے جارہے ہیں، وہ صرف اور صرف عقیدہ پر مبنی ہے جبکہ یہ تو عقل پر مبنی ہونی چاہئے تھے۔

واضح رہے کہ گائے دراصل حکمراں طبقہ کی ایک سیاسی علامت بن گئی ہے اور اسی وجہ سے اس کا پیشاب بڑے پیمانے پر علاج و معالجہ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ آج گاؤموتر اور گوبر نے بڑے بڑے طبی آلات اور ادویات کی جگہ لے لی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ویٹرنری سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ پیشاب اور گوبر جسم کے فاسد مادے ہیں اور ان سے انسانی جسم کو کسی بھی قسم کے فوائد پہنچنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم ہندوستانیوںکا یہی عقیدہ ہے کہ 33 کروڑ بھگوان ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں اور یہ مذہب و عقیدے کا سوال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمراں طبقہ اپنی انہیں پالیسیوں کو مقبول بنانے پر مجبور کررہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یگنہ اور آہوتی بھی کی جارہی ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات میں یہ دونوں کسی بھی طرح فائدہ بخش نہیں۔ بی جے پی کی سرپرست تنظیم کے والینٹرس مختلف مقامات پر ہون کے اہتمام کا بڑی شدت کے ساتھ پروپگنڈہ کررہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ ہون کرنے سے کورونا وائرس بھاگ جائے گا۔ جہاں تک بابا رام دیو کا سوال ہے وہ پچھلے دو دہوں سے ملک کے سرفہرست باباؤں میں شمار کئے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایلوپیتھی طریقہ علاج انتہائی بے وقوفی ہے اور یہ سائنس کا دیوالیہ پن ہے۔ جواب میں انڈین میڈیکل اسوسی ایشن نے اپنا احتجاج درج کروایا۔ مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن نے بابا رام دیو کو ایک مکتوب لکھا اور پھر رام دیو اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے۔ یہ وہی رام دیو ہے جنہیں بھوک ہڑتال کرنے کے چند دن بعد ہی حالت بگڑنے پر آئی سی یو میں شریک کیا گیا تھا۔ یہ وہی رام دیو ہے جن کے پارٹنر بالکرشن کو حال ہی میں ایلوپیتھک اسپتال میں شریک کیا گیا تھا۔ بہرحال نامعقول بیانات اور پالیسیوں کے نتیجہ میں پچھلے چند دہوں سے اس طرح کے عقائد مستحکم ہوتے جارہے ہیں اور نسلی سیاست عروج پر پہنچ رہی ہے۔ ہندوتوا کے نعرے لگائے جارہے ہیں اور اسے مذہبی قوم پرستی کا نام دیا جارہا ہے، اس کے ذریعہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ جمہوریت اقدار سے قبل ذات پات اور صنفی درجہ بندی کا جو رواج تھا، وہ بحال ہوجائے۔ آج اندھے عقائد اور نظریات بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہیں ثابت کرنے کیلئے اندھی تقلید کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ ہمارا دستور یہی چاہتا ہے کہ ریاست ، سائنٹفک رجحان کو فروغ دے اور اس سلسلے میں خصوصی پالیسی پر عمل کرے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تخریبی قوم پرستی کا رجحان بڑھنے لگا ، ہم تمام نے دیکھا کہ معقول سوچ و فکر پر حملے شروع کئے گئے۔ ہم نے ڈاکٹر دابھولکر ، کامریڈ پنسارا ، ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل دیکھے ہیں اور اب کورونا اور دوسری وباؤں کے المیے نے اندھے عقیدہ کا احیاء کیا ہے، جیسے کہ حکمراں طبقہ کی تمام تر آئیڈیالوجی عقیدہ ؍ اندھے عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ عقیدہ وباء سے موثر طور پر نمٹنے میں ایک رکاوٹ ہے اور رام دیو جیسے لوگ عقیدے کے اہرام پر مبنی نالج کے بلند درجے پر ہیں۔ ان کے ساتھ کئی ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کی نامعقولیت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنٹفک رجحان کو فروغ دیں اور دنیا کو بتائیں کہ برتن یا تھالیاںبجانے یا بتیاں بجھانے اور دِیا جلانے سے اس شرمناک صورتحال جس کا ہم سامنا کررہے ہیں، مقابلہ نہیں کرسکتے اور ایسے طریقہ سے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔