کورونا قہر کے دوران انتخابات کا پیغام : ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

,

   

پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے، کیرالہ میں ایل ڈی ایف اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ وہیں بی جے پی کےلئے آسام کی کرسی بچاتے ہوئے پڈوچیری میں حکومت بنانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ اسی کے ساتھ اٹھارہ ریاستوں میں حکومت بنانے والی وہ ملک کی پہلی پارٹی بن گئی ہے۔ مغربی بنگال میں لیفٹ اور کانگریس کو پچھاڑ کر 77 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی بنگال میں دوسری نمبر کی پارٹی بن گئی ہے، جو اپنے آپ میں بڑی کامیابی ہے۔ واضح رہے 2016 میں اسے صرف تین سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود کیرالہ میں اس کا کھاتہ تک نہیں کھل سکا۔ بلدیاتی و ضمنی انتخابات میں بھی اس کی کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی کیوں کہ بی جے پی کی پوری توجہ بنگال جیتنے پر لگی تھی۔ مرکزی وزیر بابل سپریو اور ممبر پارلیمنٹ سوپن داس گپتا کو بھی چناؤ میں اتارا گیا تھا۔ رائے دہندگان کو لبھانے کےلئے وزیراعظم نے عین الیکشن کے دوران بنگلہ دیش کا دورہ بھی کیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب کورونا کی دوسری زیادہ خطرناک لہر ملک میں دستک دے چکی تھی۔ اسپتال سے لے کر سڑک تک آکسیجن، دوائیوں اور ٹیکوں کی کمی سے لوگ ڈر رہے تھے ،مر رہے تھے۔ مریضوں کو اسپتالوں میں اور مردوں کو شمشان، قبرستان تک میں جگہ نہیں مل رہی تھی لیکن وزیراعظم، وزیر داخلہ ہر طرف سے آنکھیں موند کر ریلی، روڈ شو اور لوگوں کے گھروں میں کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ انتخابی تشہیر کے دوران لی گئی تصویریں کورونا پروٹوکول کی دھجیاں اڑانے کی گواہ ہیں۔ ریلی، روڈ شو میں سوشل ڈسٹینسنگ تو دور خود وزیراعظم اور وزیر داخلہ تک بغیر ماسک کے نظر آئے۔ جبکہ کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں سائنسدان فروری میں ہی حکومت کو متنبہ کر چکے تھے۔ مگر اس پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی مارچ میں وزیراعظم نے مغربی بنگال میں پانچ ریلیاں کیں اور انتخابات کرائے گئے۔

یاد کیجئے پچھلے سال کورونا کا سلسلہ نمستے ٹرمپ سے شروع ہوا تھا۔ مگر حکومت اسے ماننے کو تیار نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کا اجلاس اس وقت تک جاری رکھا گیا، جب تک مدھیہ پردیش میں اقتدار کی تبدیلی نہیں ہو گئی۔ اس کی وجہ سے کئی ممبران پارلیمنٹ کورونا سے متاثر ہو گئے تھے۔ حکومت کی آنکھ اس وقت کھلی جب ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد پچاس ہزار ہو گئی۔وزیراعظم نے رات کو آٹھ بجے ملک سے خطاب کیا۔ بیماری سے لڑنے کےلئے متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر زور دیا۔ جنتا کرفیو، لاک ڈاو ¿ن، ریل کی بوگیوں، اسکولوں کو کووڈ سینٹر بنانے اور ریاستی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ورچول میٹنگ کرنے جیسے قدم اٹھائے گئے۔ صحت کارکنان، ڈاکٹر، پولیس اور ضروری سہولیات فراہم کرنے والوں کی ہمت افزائی کےلئے تالی تھالی بجائی، دیا، ٹارچ اور موم بتی جلا کر عوام نے متحد ہوکر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام دیا۔ تکلیف اٹھا کر اور بھوک برداشت کرکے بھی لاک ڈاؤن کے حکم پر عمل کیا۔ لیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں۔بی جے پی اور وزیراعظم نے عوام پر الیکشن کو ترجیح دی۔ وہ 2 اپریل کو جب پہلی ریلی کےلئے دہلی سے اڑان بھر کر بنگال پہنچے تو اس دن ملک میں 714 اور بنگال میں چار لوگوں کی کورونا سے موت ہوئی تھی اور متاثرین کی تعداد 65904 تھی لیکن ان کے چہرے پر نہ کوئی شکن تھی نہ آہ۔ دوسری ریلی 3 اپریل کوہوئی،جب ملک میں 513 اور بنگال میں 6 لوگوں نے کورونا سے دم توڑا، متاثرین کی تعداد بڑھ کر 72973 ہو گئی۔ اس دن بھی وزیراعظم کا دل نہیں پسیجا۔ تیسری ریلی 6 اپریل کے دن ملک میں630 اور بنگال میں سات لوگوں کی کورونا سے موت ہوئی۔ کورونا کے مریض 93141 ہوگئے لیکن برسراقتدار جماعت بے پرواہ ہو کر الیکشن میں لگی رہی۔ 10 اپریل کو ملک میں 839 جبکہ بنگال میں 12 لوگ مرے اور اس دن متاثرین کی تعداد 125014 تھی۔ 12 اپریل کو ریلی کےلئے جب وزیراعظم نکلے توملک میں مرنے والوں کی تعداد 879تھی،جبکہ بنگال میں 14لوگوں نے جان گنوائی تھی،اس دن متاثرین کا آنکڑا 143108 تھا۔ اس کے بعد متاثرین اور موت کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود 17 اپریل کو وزیراعظم پھر ریلی کرنے بنگال پہنچ گئے۔ اس دن ملک میں 1600 اور بنگال میں 34 لوگوں کو موت نے ہرا دیا، متاثرین کی تعداد دولاکھ کو تجاوز کر چکی تھی۔ اس کے باوجود’ دیدی او دیدی‘ کہہ کر ممتا بنرجی کو کیا کچھ نہیں کہا۔ جبکہ راہل گاندھی ملک کی صورتحال دیکھتے ہوئے اس سے پہلے ہی کوئی ریلی نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔

بے شرمی کی حد اس وقت ہو گئی جب کورونا سے ملک کے بگڑتے حالات کو لے کر پوری دنیا میں بھارت کی تھو تھو ہونے لگی اس کے باوجود انتخابی ریلیاں جاری رہیں۔ 23 اپریل کو وزیراعظم نے کہا ہم بنگال نہیں جائیں گے۔ اس دن بھی بنگال کے مختلف علاقوں میں 200 ایل ای ڈی لگا کر ورچول ریلی کی گئی۔ اس میں بنگال کو مستقبل کا شہر بنانے کی بات کی جا رہی تھی۔ جبکہ ملک میں 2624 اور بنگال میں 59 لوگوں نے کووڈ سے دم توڑ دیا تھا۔ متاثرین کا آنکڑا تین لاکھ (297731) چھونے کو تھا۔ اسپتالوں میں آکسیجن کی مارا ماری شروع ہو چکی تھی۔ دوائیاں، ویکسین نہیں مل رہی تھی۔ لوگ اپنے عزیزوں کو اسپتال اور اس کے باہر لاچاری میں تڑپتا مرتا دیکھ رہے تھے۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے دہلی میں ہو رہا تھا۔ 55 اسپتال ایسے ہیں، جو پی ایم او کے دس کلو میٹر کے دائرے میں ہیں۔ ان میں سے 42 آکسیجن کےلئے حکومت سے گوہار لگا رہے تھے۔ کسی کے پاس دو گھنٹہ کی تو کسی کے پاس چار گھنٹہ کی آکسیجن بچی تھی۔ سر گنگا رام اور بترا جیسے اسپتال میں آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مریضوں کے مرنے کی خبر آرہی تھی۔ ملک کے وزیر داخلہ اس صورتحال سے نبٹنے کی منصوبہ سازی کرنے کے بجائے بنگال میں پرچار کر رہے تھے۔ 27 اپریل کو 3293 لوگ اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ ووٹنگ کے آخری دن یعنی 29 اپریل کو کورونا کے مریضوں کا آنکڑا ساڑھے تین لاکھ کو پار کر چکا تھا۔ الیکشن جیتنے کی کل بلاہٹ اور عوام کے تئیں اتنی بے حسی اس سے قبل کبھی دکھائی نہیں دی۔

بی جے پی نے بنگال جیتنے کےلئے جو تیاری کی تھی، اس کا اندازہ سینئر صحافی پونیہ پرسون باجپئی کی رپورٹ سے ہوتا ہے۔ ہر ضلع میں آر ایس ایس کے 1500 کارکنان کام کر رہے تھے۔ پندرہ، سولہ سو کی بی جے پی آئی ٹی سیل اور حامیوں کی جماعت کو لگایا گیا تھا۔ قریب دس ہزار پارٹی کیڈر کو اڑیسہ، جھارکھنڈ اور دوسری ریاستوں سے ماحول بنانے کےلئے یہاں لایا گیا تھا۔ 16 نوکر شاہ، 18 بیوروکریٹ اور 18 کابینہ وزیر بھاجپا کی ریلیوں اور الیکشن کو مینیج کرنے کا کام کر رہے تھے۔ 700 سے 900 کمپنیاں مغربی بنگال کے ہر انتخاب کو فری اینڈ فیئر کرانے میں لگی ہوئی تھیں۔ انتخابی کمیشن کے 42 افسران بنگال الیکشن کی پل پل کی خبر دہلی کو دے رہے تھے۔ یہ خبریں سرکار تک پہنچ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ گورنر ہاؤس عملاًبی جے پی کے الیکشن کا کیمپ آفس بنا ہوا تھا۔ پھر انتخابی کمیشن نے بی جے پی کی سہولت کو دھیان میں رکھ کر الیکشن کو آٹھ مراحل میں کرانا طے کیا جبکہ 2016 میں اسے چھ مراحل میں پورا کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بی جے پی کی کراری شکست ہوئی ہے۔ البتہ ماحول کو پولرائز کرنے اور عوام کو بانٹنے میں اسے کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔ اندرا گاندھی کا رائے بریلی سے الیکشن الہ آباد ہائی کورٹ نے نمائندگی ایکٹ کے تحت محض اس وجہ سے رد کر دیا تھا کہ پی ایم او کے ایک افسر کی موجودگی الیکشن میں نظر آئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ یہ کیسے ہو گیا کہ چناؤ میں ایک افسر کی مدد لی گئی۔ آج عدالت اور انتخابی کمیشن دونوں خاموش ہیں۔ اس صورتحال میں الیکشن کا کیا ذکر کیا جائے۔ ملک کو موت کے منھ میں دھکیل دیا گیا۔ انفراسٹرکچر بنانے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اسپتالوں، مریضوں کے علاج کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ عوام کو ہندو مسلم، مذہبی نفرت اور ذاتوں کے چکر ویو میں الجھا دیا گیا ۔ تبھی تو 15 ماہ میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ سوا دو لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد بھی عوام حکومت سے سوال نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے میں مثبت خبر کیرالہ سے آئی ہے، جہاں کے عوام نے اپنی روایت کے خلاف ایل ڈی ایف کو دوبارہ حکومت بنانے کا موقع دیا ہے۔ ایل ڈی ایف حکومت نے کورونا سے جس طرح اپنے عوام کا تحفظ کیا، اس کی پوری دنیا نے تعریف کی تھی۔ شاید عوام نے الیکشن میں اسی کا اسے بدلہ دیا ہے۔ بنگال میں ایک امیدوار کی عین الیکشن کے دوران کورونا سے موت ہو گئی تھی۔ بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخاب جیتنے کے باوجود کئی امیدوار کورونا سے اپنی زندگی ہار گئے۔ مصیبت کے وقت ہوئے انتخابات یہی پیغام دے رہے ہیں کہ سیاستدانوں کے نزدیک انسانی زندگی پر الیکشن لڑنے، جیتنے اور حکومت بنانے کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کیفیت کو بدلنے کےلئے ضروری ہے کہ عوام اپنا احتساب کریں اور طے کریں کہ وہ اپنے بچوں کو کیسا ہندوستان دینا چاہتے ہیں۔