کورونا وائرس اور بابو راج

   

راج دیپ سردیسائی
بی بی سی کا ہفتہ واری پروگرام ’’ایس منسٹر‘‘ طنز و مزاح سے بھرپور ایک دلچسپ پروگرام ہے جس میں سیاستداں اور اعلیٰ سرکاری عہدہ دار (بیوروکریٹ) کے تعلقات کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا۔ اس پروگرام کے ایک یادگار حصہ میں اعلیٰ سرکاری عہدہ دار سر
Hamphrey appleby
اپنے وزیر جیمس ہیکر سے کہتے ہیں ’’آپ یہاں یہ محکمہ چلانے کے لئے نہیں ہیں‘‘ اپنے ماتحت اعلیٰ عہدہ دار کی یہ بات سنکر ناراض ہونے والے وزیر بڑے غصہ سے یوں جواب دیتے ہیں ’’آپ کے کہنے کا مطلب کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ میں ہی اس محکمہ کا ذمہ دار اور اس کا نگران ہوں اور عوام بھی یہی سوچتے ہیں‘‘۔

وزیر کے ان الفاظ کا بیورو کریٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور بے پروائی سے وہ وزیر سے کچھ یوں مخاطب ہوتے ہیں ’’عزت و احترام کے ساتھ مسٹر منسٹر آپ اور عوام غلط ہیں‘‘۔ بیوروکریٹ کی اس بات کو درمیان میں کاٹتے ہوئے وزیر مایوسی کے عالم میں سوال کرتے ہیں ’’تو پھر محکمہ کون چلاتا ہے‘‘ جس پر سر ہمفر معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہیں ’’میں چلاتا ہوں‘‘ ایسا ہی کچھ ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔ وہاں ایک پروگرام میں سرہمفر نے کاکروار تھا یہاں ہمارے ملک ہندوستان میں ہمفرے کے حقیقی کردار ہمارے بااثر بیورو کریٹس (اعلیٰ عہدہ دار) ہیں جن کا حکومت چلانے پر پورا کنٹرول ہے، یہ عہدہ دار اکثر مختلف بھونوں اور سکریٹریٹ (دفاتر معتمدین) کے گمنام دھاتی ساخت کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔

مابعد فراخدلانہ معاشی دور جو بیانات منظر عام پر آئے اس میں غلطی سے یہ کہا گیا کہ پالیسی سازی میں بیورو کریٹس کا زیادہ کردار نہیں ہوتا۔ حقیقی لائنوں کے خاتمہ نے سابق میں چلنے والے لائسنس پرمٹ راج سے اس کے تمام اختیارات تمیزی چھین لئے تھے لیکن بیورو کریٹس ہنوز اختیارات کے بہت زیادہ ذخائر اپنے پاس رکھتے ہیں۔
ایک اور گمان یہ بھی ہے کہ نریندر مودی جیسے طاقتور و بااثر کرشماتی سیاستدانوں کے ابھرنے کے ساتھ ہی بیوروکریٹس اپنی اتھاریٹی کھوچکے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ گاندھی نگر میں جب وہ چیف منسٹر تھے اور اب دہلی میں بحیثیت وزیراعظم دونوں جگہ مودی ماڈل کا زیادہ تر انحصار Faceless بیورو کریٹس پر ہی رہا، خاص طور پر کسی بحران کے موقع پر مودی ماڈل ان اعلیٰ عہدہ داروں پر ہی انحصار کرتا رہا۔

کورونا وائرس کی وباء کووڈ ۔ 19 کے بارے میں مارچ کے وسط میں پہلی مرتبہ ریڈ الرٹ جاری کیا گیا تب سے ہی ملک کو بیورو کریٹس یا اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں کا ایک چھوٹا سا گروپ موثر طور پر چلا رہا ہے۔ وہ اپنے اختیارات کا اچھی طرح اور قانونی طور پر استعمال کرتے رہے اور اس کے لئے وبائی امراض سے متعلق 1897 کے قانون کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ برطانوی سامراج یا نوآبادیات کے دور کا ایک قانون ہے اس کے علاوہ بیوروکریٹس ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ایکٹ 2005 سے بھی بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ غیر معمولی اوقات میں غیر معمولی اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے موقع پر جبکہ ملک نے صدی میں ایک مرتبہ پھیلنے والی وباء کا سامنا کیا ہے۔ ملک کے پاس قومی لاک ڈاون پر موثر انداز میں عمل آوری کو یقینی بنانے سخت قوانین نافذ کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں۔لیکن بیوروکریٹس کے فرمان اور پولیس کے ڈنڈے کے ذریعہ زندگیاں بچانے کے لئے لاک ڈاون نافذ کرنا ایک الگ چیز ہے اور لوگوں کے گذر بسر و جانوں کے تحفظ کے لئے سازگار حالات پیدا کرنا دوسری چیز ہے۔

جہاں شہریوں کو راہ راست پر لانے کے لئے پیچیدہ قواعد سازی چھ ہفتہ قبل کرنے کی ضرورت تھی آج کلر کوڈیڈ انڈیا (ہندوستان کو کورونا وائرس کی شدت کے لحاظ سے سرخ، زعفرانی اور سبز رنگ کے حامل علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے) میں بیورو کریٹس کی بھول بھلیاں پیدا کئے جانے کا جوکھم پایا جاتا ہے اور یہ صرف لاک ڈاون سے ایک پیمانہ بندی Calbrated اخراج کو یقینی بنائے گا جو بہت ہی پیچیدہ ہے۔ مثال کے طور پر ای۔ کامرس ڈیلیوری سسٹم کے بارے میں پائی جانے والی الجھن کو لیجئے۔
ہوسکتا ہے کہ کانگریس کی کارگذار صدر کے ریمارکس سیاسی مفادات پر مبنی ہوں۔ کانگریس کی زیر اقتدار ریاستوں پر بھی یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے ورکروں کو ان کے آبائی مقامات روانہ کرنے کے لئے موثر اقدامات نہیں کررہی ہیں لیکن وہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں عظیم تر سیاسی شمولیت کی فوری ضرورت کا اشارہ بھی دے رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں سیاستدانوں کو جماعتوں سے بالاتر ہوکر کام کرتا چاہئے۔
فی الوقت ملک میں معاشی سرگرمیوں کی طرح سیاسی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں اور حالات نے ایسا سمجھا دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی نیتاگری موجودہ حالات کے اسپرٹ کے خلاف ہے اب تو قومی ہم آہنگی و یگانگت کی ضرورت ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے اس میں اختلاف رائے ناراضگی اور مذاکرات نہ ہوں تو یہ کیفیت جمہوریت کے لئے بہت خطرناک ہوتی ہے جس سے آمریت حکمرانی کا موقع ملتا ہے۔ ایسے میں ایک متنوع اور جمہوری معاشرہ تمام اختیار غیر منتخبہ بیورو کریٹس کے حوالے نہیں کرسکتا یا واقعی انتہائی اعلیٰ مرکوزیت کے حامل ریاستی آلات کے حوالے نہیں کرسکتا۔ سرکاری عہدہ دار کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بہت ہی قابل قدر عناصر ہوتے ہیں لیکن اکثر بیوروکریٹس کا عوام سے تعلق نہیں رہتا ان کے برعکس سیاسی رہنما ہمیشہ عوام سے جڑے رہتے ہیں۔