کورونا ‘ کمیونٹی ٹرانسمیشن

   

ہم نے بھی شامِ غم کی کاٹی ہیں منزلیں
لیکن قدم قدم پہ چراغاں کئے ہوئے
کورونا ‘ کمیونٹی ٹرانسمیشن
کورونا وائرس نے ہندوستان بھر میں اب مزید شدت اور تیزی دکھانی شروع کردی ہے ۔ ہر روز گذرے دن سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے اور یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ دو تا تین ہفتوں میں یہ تعداد دوگنی بھی ہوسکتی ہے ۔ کئی ریاستیں ایک طرح سے کورونا ہاٹ اسپاٹ میں بدل گئی ہیں اور وہاں وائرس تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے وائرس کے پھیلاو پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ ناکافی ثابت ہوتے جا رہے ہیں اور مسلسل عوام اس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ جو حالات ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتیں اس معاملے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں اور اب وہ عملا ساری صورتحال اور خود ملک کے عوام سے لا تعلق ہوگئی ہیں۔ وہ صرف یومیہ اساس پر متاثرین کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے صرف عوام سے ضابطہ کی تکمیل کیلئے اپیل جاری کرتے ہوئے بری الذمہ ہوتی جا رہی ہیں ۔ وائرس پر قابو پانے کے معاملے میں ساری مرکزی حکومت اور ملک کی تقریبا تمام ریاستوں کی حکومتیںعملا ناکام ہوگئی ہیں اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ عوام نہ صرف کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ علاج کے معاملے میں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہ گیا ہے ۔ سرکاری دواخانوں کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ لوگ وہاں اپنے رشتہ داروں کو شریک کرواتے ہوئے خوف زدہ ہورہے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین نہیں رہ گیا ہے کہ ان دواخانوں سے ان کے رشتہ دار زندہ سلامت واپس گھر بھی آئیں گے یا نہیں۔ جہاں تک خانگی دواخانوں کا سوال ہے تو وہ تو لوٹ مار کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ لاکھوں روپئے بل کے نام پر وصول کئے جا رہے ہیں اور وہاں بھی علاج کی کوئی ضمانت نہیں رہ گئی ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کورونا وائرس کی کوئی دوا دریافت نہیں ہوئی ہے اس کے باوجود مریضوںسے لاکھوں روپئے اینٹھے جا رہے ہیں اور حکومتیں اس لوٹ مار پر قابو پانے میں عملا ناکام ہوگئی ہیں بلکہ سارے معاملے سے بے تعلق ہوگئی ہیں۔
اب ایسا لگتا ہے کہ ملک کے عوام کیلئے حالات مزید دگرگوں ہونے والے ہیں کیونکہ انڈین میڈیکل اسوسی ایشن نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کا کمیونٹی ٹرانسمیشن شروع ہوگیا ہے اور صورتحال ابتر ہونے لگی ہے ۔ اسوسی ایشن نے کہا کہ روزآنہ ملک بھر میں30 ہزار سے زائد لوگ متاثر ہونے لگے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ دنوں میں متاثرین کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ دوگنی ہوتی جائیگی ۔ حکومتوں نے پہلے لاک ڈاون عائد کرتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ وائرس پر قابو پانے کا واحد ذریعہ لاک ڈاون ہی ہے اور لوگ گھروں میں بند رہتے ہوئے ہی وائرس کے پھیلاو کو روکنے کا سامان کرسکتے ہیں۔ اب حکومتوں کی جانب سے زندگی کے ہر شعبہ میںتحدیدات کو عملا ختم کردیا گیا ہے ۔ ایسے وقت میںجبکہ سارے ملک میں وائرس کے پھیلاو میں تیزی اور شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے اور متاثرین کی تعداد لاکھوں کے پار ہوچکی ہے کسی طرح کی تحدیدات نہیں ہیںاور حکومت بھی اپنے طور پر عوام سے صرف اپیل کرتے ہوئے کوئی اور حکمت عملی مرتب نہیں کر رہی ہے۔ نہ ادویات کے معاملے میں حکومت نے کوئی منصوبہ بنایا جارہا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کو کوئی راحت مل سکے ۔ صرف احتیاط کی اپیلوں پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ۔
اب جبکہ ساری صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے اور لوگ بھاری تعداد میں متاثر ہوتے جا رہے ہیں حکومت کو ایک جامع منصوبہ تیار کرتے ہوئے عوام کو راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومت کو سب سے پہلے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں حالات کو بہتر بنانے اور عوام کو ممکنہ حد تک بچانے اور راحت پہونچانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملے میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشاورت کی جانی چاہئے اورسیاسی اختلافات کو اس معاملے میں حائل ہونے کا موقع نہیںدیا جانا چاہئے ۔
وبائی دور میں نفع خوری
کورونا وباء کی وجہ سے سارے ملک میں افرا تفری کا ماحول ہے ۔ لوگ جہاں وائرس کا شکار ہوکر پریشان ہیں وہیں ادویات کے معاملے میں بھی انہیں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ کچھ نفع خور اس انتہائی گہما گہمی والی صورتحال میں بھی انسانیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نفع خوری پر اتر آئے ہیں۔ ان میں جہاںکارپوریٹ اور خانگی دواخانے شامل ہیں وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ملوث ہیں جو نہ تو دواخانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ فارمیسی سے انکا تعلق ہے بلکہ یہ لوگ تو ادویات کی بلیک مارکٹنگ تک بھی کرنے لگے ہیں۔ دواخانوں میں پڑے موت و زندگی کی جنگ لڑتے مریض ادویات کیلئے تڑپ رہے ہیں اور یہ نفع خور اپنے چند روپئے کے فائدے کیلئے مریضوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ چند ہزار قیمت والی ادویات کو دس تا بیس گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہوئے انسانیت کو شرمسار کر رہے ہیں اور محض اپنی جیبیں بھرنے کیلئے مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسے عناصر کا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہئے ۔ ان کے خلاف حکومتوں کو حرکت میںآتے ہوئے سخت ترین کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ ان نفع خوروں کو ایسی سزائیںدی جانی چاہئیں جن سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور مزید کوئی ایسی غیر انسانی حرکتیں نہ کرنے پائے ۔