کورونا کے خلاف جنگ اور دہلی

   

آج سارا ہندوستان کورونا کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے ۔ ملک کی کوئی ریاست اور کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں کورونا نے اپنا قہر نہ مچایا ہو۔ ہندوستان کے سارے عوام اس خطرناک اور مہلک وباء سے خوف محسوس کر رہے ہیں۔ لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور ہزاروں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ دنیا بھر میں بھی اس وائرس کا قہر جاری ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ترین کہلانے والے ممالک بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حالانکہ بعض صورتوں میں اسے انتہائی معمولی بھی قرار دیا جا رہا ہے لیکن اکثر و بیشتر اسے انتہائی مہلک اور خطرناک بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں ایک بات ضرور محسوس کی گئی ہے کہ اس وائرس کے خلاف اگر جدوجہد کرنی ہے اور کامیابی کے ساتھ ابھرنا ہے تو پھر پوری سنجیدگی سے اور ساری توجہ کے ساتھ اس تعلق سے اقدامات کرنے ہونگے ۔ محض چل چلاو والی پالیسی یا پھر دکھاوے کے اقدامات اور محض اعلانات کے ذریعہ اس وائرس کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے ۔ اس کیلئے حکومتوں کو کمر کس کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بات دہلی کی حکومت نے ثابت کردکھائی ہے ۔ دہلی جیسے شہر میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی تھی اور کہا یہ جا رہا تھا کہ یہاں حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اور حکومت صورتحال پر کنٹرول نہیں کرپائے گی تاہم اروند کجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی حکومت نے گذشتہ ایک مہینے میں صورتحال کو تبدیل کردکھایا ہے ۔ دہلی میں کورونا سے صحتیابی کا تناسب سارے ملک کے قومی تناسب سے بہت زیادہ ہے ۔ ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد جہاں اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے وہیں اب محض 12,657 ایکٹیو کیس ہی بچے ہوئے ہیں اور یہاں صحتیابی کا تناسب یا اوسط 87.29 فیصد تک جا پہونچا ہے ۔ دہلی ہندوستان کی وہ واحد ریاست ہوگئی ہے جہاں اس وائرس کے انفیکشن کے پھیلنے کی رفتار سے اس سے صحتیابی کی رفتار زیادہ ہوگئی ہے ۔ جہاں ایک ہزار لوگ اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں وہیں 2000 افراد اس وائرس سے صحتیاب ہو رہے ہیں۔
کجریوال حکومت نے کورونا پر قابو اپنے کیلئے جو اقدامات کئے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ کمی یا نقص رہا ہو لیکن بحیثیت مجموعی دہلی میں کئے گئے اقدامات اور انتظامات کو سارے ملک میں اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ دہلی میں ہوم آئیسولیشن کی پالیسی بہت زیادہ کامیاب رہی ہے اور اسی کی وجہ سے وہاں صحتیابی کی شرح اور تناسب میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ دہلی حکومت نے مریضوں کو صرف گھر پر رہنے کی ہدایت دی ہو اور خود بری الذمہ ہوگئی ہو۔ حکومت کی جانب سے گھروں پر آئیسولیشن میں رہنے والے مریضوں کی دیکھ بھال انتہائی منظم اور بہترین طریقہ پر انجام دی گئی ۔ انہیں ادویات فراہم کی گئیں۔ ان کی خوراک کا اہتمام کیا گیا ۔ ان کی وقفہ وقفہ سے مزاج پرسی کی گئی اور ان کی پیشرفت پر قریبی نظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ یہاں اموات نہ ہونے پائیں اور مریض صحتیاب ہوجائے ۔ دہلی میں کورونا کے پھیلنے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہاں مکمل لاک ڈاون دوبارہ لاگو کردیا جانا چاہئے لیکن ایسا ہرگز نہیں کیا گیا ۔ کجریوال نے لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے طور پر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ اقدامات اب ثمر آور بھی ثابت ہونے لگے ہیں۔ دہلی میں جملہ 110,931 کورونا مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔ ان میں اکثریت دواخانوں میں صحتیاب ہوئی ہے تو خاطر خواہ تعداد نے گھروں پر آئیسولیشن میں رہتے ہوئے کورونا کو شکست دی ہے ۔
آج سارے ہندوستان میں عوام کورونا کی وجہ سے پریشان ہیں۔ کئی ریاستیں ایسی جہاں کورونا انتہائی خطرناک رفتار سے پھیل رہا ہے ۔ طبی ادارے یہ اعتارف کرنے لگے ہیں کہ کورونا کا کمیونٹی ٹرانسمیشن بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ایسے وقت میں اگر دہلی میں حالات بہتر ہونے لگے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ اس طریقہ کار کو سارے ہندوستان میں اختیار کیا جاسکتا ہے اور اختیار کیا جانا چاہئے ۔ سیاسی اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ان اختلافات کو کورونا کے خلاف لڑائی میں رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اصل مقصد کورونا کو شکست دینا اور عوام کو بچانا ہے ۔ اس کیلئے پوری توجہ اور سنجیدگی سے کام کرتے ہوئے کورونا کو شکست دی جاسکتی ہے ۔
معاشی سدھار سے حکومت کا تغافل
ہندوستان دنیا کی تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے تاہم حالیہ عرصہ میںمختلف وجوہات کی وجہ سے ہندوستانی معیشت کی رفتار ماند پڑگئی ہے ۔ سستی چھا گئی ہے اور جہاں تک حکومت کا سوال ہے وہ معیشت کو حقیقی معنوں میں سدھارنے اور اس میں نئی جان ڈالنے کی بجائے محض وقتی اور جزوی اقدامات کرنے پر ہی اکتفاء کر رہی ہے ۔ حکومت جتنے اقدامات کر رہی ہے اور جتنے فیصلے کئے جا رہے ہیںاس سے زیادہ تشہیر کا سہارا لیا جا رہا ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ محض اعداد و شمار کے الٹ پھیر اور تشہیر کے ذریعہ صورتحال پر قابو پالیا جائیگا تاہم ایسا کرنا ممکن نہیںہے ۔ ماہرین معاشیات کی رائے کے بموجب ہندوستان کیلئے آنے والا وقت مشکل ترین ہوسکتا ہے ۔ پہلے ہی معیشت کی حالت مستحکم نہیں تھی اور کئی مسائل کا سامنا تھا تاہم کورونا وائرس کی وباء نے حالات کو مزید دگرگوں کردیا ہے اور رہی سہی کسر لاک ڈاون کی وجہ سے پوری ہوچکی ہے ۔ آج مارکٹوں کا حال انتہائی ابتر ہے ۔ خریداری کی شرح اور رفتار دونوں ہی کم پڑگئے ہیں۔ ہندوستان کی جملہ گھریلو پیداوار بھی متاثر ہوگئی ہے اور یہ سب سے کم سطح تک پہونچنے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میںبینکوں کی حالت مستحکم نہیں ہے ۔ این پی ایز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ بینکوں کو چونا لگاتے ہوئے اپنی چاندی کر رہے ہیں اور حکومت بینکوں کی حالت کو مستحکم کرنے کی بجائے ان سے محفوظ ذخائر حاصل کرتے ہوئے اپنا کام کاج چلانے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ بحیثیت مجموعی جو صورتحال ہے اسے معیشت کیلئے مستحکم ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ معاشی بہتری اور استحکام کیلئے حکومت کو جراتمندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے تاکہ معیشت کو حقیقی معنوں میں کارکرد ‘ موثر اور مستحکم بنایا جاسکے۔