کورونا ۔ دنیا بھر کی حکومتوں کیلئے بڑا چیلنج

   

رویش کمار

کیا دنیا ایسے مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ چند دنوں کیلئے بہت کچھ موقوف ہوجائے گا؟ کیا کئی ممالک بقیہ دنیا سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا وائرس کو دنیا بھر میں پھیل چکی وبا
(pandemic)
قرار دے چکی ہے۔ اسے دہلی میں
epidemic
(وسیع علاقے تک پھیلی وبا) قرار دیتے ہوئے تمام سنیما گھر 31 مارچ تک بند کردیئے گئے ہیں۔ جہاں امتحانات ہوچکے، وہ اسکولوں کو بند رکھنے کے احکام بھی جاری کئے گئے۔ 2009ء میں سوائن فلو کو
pandemic
قرار دیا گیا تھا۔ کورونا وائرس دنیا بھر کی حکومتوں کیلئے بڑا چیلنج چکا ہے۔ سرکاری نظام صحت یا پبلک ہیلتھ سسٹم پر شدید دباؤ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وبائی مرض سے لڑنے کیلئے دنیا بھر کے ملکوں میں جو معاشی اثر پڑرہا ہے، وہ بہت بھاری ہے۔ اس کا اندازہ صرف اسٹاک مارکیٹ کے زوال سے نہیں کیا جاسکتا، بلکہ پہلے سے سست معیشت میں یہ گراوٹ بڑی معاشی تباہی لا سکتی ہے۔

اٹلی کورونا وائرس کے سبب اموات کے معاملے میں چین کے باہر سب سے زیادہ جانی نقصان برداشت کرنے والا ملک ہے۔ وہاں 12,462 افراد اس وائرس سے متاثرہ پائے گئے ہیں۔ 827 مریض فوت ہوچکے ہیں۔ سارے اٹلی میں بند جیسی صورتحال ہے۔ 6 کروڑ افراد کے ملک سے باہر جانے پر امتناع ہے۔ انھیں گھر میں اور وطن میں ہی رہنا ہے۔ اٹلی میں سوائے ڈرگس (ادویات) اور راشن شاپس، سب کچھ بند ہے۔ اٹلی کو آٹھویں بڑی معیشت سمجھا جاتا ہے، جس کے دو شہروں سنٹرل میلان اور پیسا کے بشمول ملک کے دیگر حصوں کے مناظر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چھ کروڑ کی اطالوی آبادی پر کس قدر شدید اثر پڑا ہے۔ اسکولز، کالجس، رسٹورنٹس، فٹ بال میچز سب بند ہیں۔ اٹلی سنسان دکھائی دیتا ہے جیسا کہ جون کی دوپہر کا منظر ہو۔ دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے اٹلی پسندیدہ ملک ہے۔ وہاں سالانہ 60 ملین ٹورسٹ جاتے ہیں۔ اٹلی کی 6 فیصد جی ڈی پی ٹورازم انڈسٹری سے آتی ہے لیکن اب یہ شعبہ مفلوج ہوگیا ہے۔ اب فلائٹس منسوخ ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس نے ٹورازم سیکٹر کے ساتھ ہوٹل انڈسٹری کو بھی بڑا جھٹکہ دیا ہے۔ آرٹس اور انٹرٹینمنٹ، ٹرانسپورٹ ریٹیل ٹریڈ، ہوٹل انڈسٹری پر مجموعی اثر اٹلی کا 23 فیصد جی ڈی پی ہے۔ فیکٹریاں بھی بند کی جارہی ہیں۔ ایسا اندازہ ہے کہ وائرس کا اثر اٹلی کی جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) کو 2020ء میں 2 فیصد تک گھٹا سکتا ہے۔ اطالوی حکومت نے کوروناوائرس سے لڑنے کیلئے 28 بلین امریکی ڈالر کا بجٹ مختص کیا ہے۔ انڈین کرنسی میں یہ رقم دو لاکھ کروڑ روپئے کے مساوی ہے۔ سوچئے کہ ایک وائرس سے لڑنے کیلئے دو لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ جرمنی نے بھی 1 بلین یورو خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور ریسرچ کیلئے خرچ کی جائے گی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کا جرمنی پر مزید اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس سے جرمنی کی 70 فیصد آبادی متاثر ہوسکتی ہے۔ یہ اندیشہ ایسے وقت ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ جرمنی میں کورونا کے صرف 1966 کیس سامنے آئے اور 3 اموات ہوئی ہیں۔ تاہم، میرکل نے جرمنی کی سرحد بند کرنے سے انکار کیا ہے۔ جرمنی میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کے اجتماع والے ایونٹس منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ فٹ بال میچز ہوں گے مگر اسٹیڈیم میں کراؤڈ نہ ہوگا۔
پولینڈ میں اسکولز، کالجس دو ہفتوں کیلئے بند کئے گئے ہیں۔ پولینڈ کے شہر کراکوو کی تصاویر دیکھنے سے کورونا وائرس کے اثر کی واضح جھلک معلوم ہوتی ہے۔ پولینڈ میں اس وائرس کے متاثرین کی تعداد 47 ہے اور ایک موت ہوئی۔ لیکن اسکول، کالج کے ساتھ سنیما تھیٹرز کو بھی دو ہفتوں کیلئے بند کیا گیا ہے۔ شہر کی سڑکیں ویران ہیں۔ حتیٰ کہ محلہ جات کے اندرونی حصوں میں تک کوئی نقل و حرکت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ مریضوں کو ہاسپٹل جانے سے منع کردیا گیا اور ڈاکٹروں سے کہا گیا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے طبی مشورہ دیں۔ ایک تصویر ڈپارٹمنٹل اسٹور کی بھی ہے جو پوری طرح خالی پڑا ہے۔ لوگوں نے تمام ضروری اشیاء خرید لئے اور اپنے گھروں میں جمع کرلئے ہیں۔ ٹوائلٹ پیپر کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ یورپی لوگوں کو اس معاملے میں ہندوستانی طریقہ کو اختیار کرنا پڑے گا، ورنہ یورپ کے سارے گھر ٹوائلٹ پیپر سے بھر جائیں گے! بہرحال پولینڈ کی معیشت کی شرح ترقی 1 فیصد تک گھٹ سکتی ہے۔ زیورچ (سوئٹزرلینڈ) پولینڈ کے شہر کراکوو سے محض 1200 کیلومیٹر دور ہے۔ یہاں بھی وائرس کے سبب خاموشی پھیلنے لگی ہے۔ مجھے وہاں کے ایک شاپنگ مال کی ویڈیو دستیاب ہوئی۔ پورا مال خالی پڑا ہے۔ زیورچ سے بھی لوگوں کے باہر جانے پر پابندی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں 650 متاثرین کی اطلاع ہے۔

امریکہ میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھ کر 1336 ہوگئی اور اموات 38 تک پہنچ گئی ہیں۔ یو ایس کانگریس کے ڈاکٹر برائن مونان نے کہا ہے کہ امریکہ میں 70 ملین اور 150 ملین کے درمیان افراد اس وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ برائن نے سینیٹ کے اسٹاف کو اس تعلق سے مطلع کیا ہے۔ نیویارک اور نیوجرسی میں ایمرجنسی کی حالت رونما ہوچکی ہے۔ نیوجرسی میں ہندوستانی کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ نیویارک اسٹاک اکسچینج پر نظر ڈالئے۔ یہ ویران ہے۔ حصص بازار میں بھی شدید گراوٹ آئی ہے۔ عام طور پر وہاں بہت سرگرمی ہوا کرتی ہے۔ نیویارک سٹی میں بروکلین برج بھی سنسنان دکھائی دیتا ہے۔ یہ برج عام طور پر سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے۔ نیویارک میٹرو جسے ’سب وے‘ کہتے ہیں، وہ بھی لگ بھگ سنسنان ہوگیا ہے۔ وہاں عام دنوں میں کھڑے رہنا مشکل ہوتا ہے۔ شہر کی سڑکیں سنسنان ہیں۔ لوگ اکا دکا نظر آتے ہیں۔ وہاں کی تصاویر دیکھنے سے ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ یہ 87 لاکھ کی آبادی والا شہر ہے۔ اس سٹی میں کار پارکنگ مشکل کام ہوتا ہے لیکن اب سڑکیں خالی ہیں۔ گاڑیاں نظر نہیں آتیں۔ دفاتر میں کرسیاں خالی پڑی ہیں۔ عوام سے گھروں سے کام (جاب) کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ نیویارک میں کورونا وائرس کے 216 کیس معلوم ہوئے ہیں۔ 17 مارچ کو میان ہٹن میں سینٹ پیٹرکس ڈے پریڈ منسوخ کی گئی۔ 250 سال میں پہلی مرتبہ یہ فسٹیول طے شدہ پروگرام کے مطابق منایا نہیں گیا۔ اس پریڈ میں 1.5 لاکھ افراد مارچ کرتے ہیں اور 20 لاکھ افراد مشاہدہ کرتے ہیں۔ نیشنل باسکٹ بال اسوسی ایشن نے 2019-20ء سیزن ٹورنمنٹ منسوخ کردیا ہے۔ نیویارک میں اسکول، کالج اور سنیما ہاؤس بند ہیں۔ اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے 60 کیمپس اور سٹی یونیورسٹی کے 20 کالج ہیں۔ اسٹوڈنٹس کی تعداد بڑھ کر 9 لاکھ ہوچکی ہے۔ 19 مارچ سے زیادہ تر کلاسیس آن لائن کی جارہی ہیں۔ تمام کلاسیس کو ایک ہفتے کیلئے بند کردیا گیا تاکہ یونیورسٹی آن لائن ایجوکیشن کیلئے تیاری کرسکے۔

امریکہ نے یورپ کے ان ملکوں سے مسافرین کی آمد پر امتناع عائد کردیا ہے، جو کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ نیویارک کو 2003ء میں وائرس ’SARS‘ سے جتنا نقصان ہوا تھا، کورونا کے سبب سات گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔ 24 بلین ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ انڈین کرنسی میں یہ 1.75 لاکھ کروڑ ہوسکتا ہے۔ امریکی انتخابات کے جلسے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ڈیموکریٹ امیدواروں برنی سینڈرز اور جو بائیڈن نے اپنے میٹنگس منسوخ کئے ہیں۔ بعض امریکی شہروں جیسے سیاٹل کے تین کاؤنٹیوں میں زائد از 250 افراد جمع ہونے پر پابندی ہے۔
کورونا وائرس نے جو نقصان پہنچایا اور اس سے لڑنے کیلئے جو بجٹ مختص کیا گیا، وہ غیرمعمولی ہے۔ اس وائرس کے باعث دنیا بھر کے حصص بازاروں میں گراوٹ آرہی ہے۔ معاشی سرگرمیاں مفلوج ہورہی ہیں۔ دنیا بھر میں ایرکرافٹ کمپنیوں کے اسٹاکس بھی گر رہے ہیں۔ یورپین یونین میں ایک قانون ہے۔ گورنمنٹ ایرلائنز کو 80 فیصدی پرواز برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے سبب خالی طیارے اُڑائے جارہے ہیں۔ انڈین اسٹاک مارکیٹس میں بھی 12 مارچ کو شدید گراوٹ آئی۔ سنسیکس زائد از 2900 پوائنٹس گرگیا۔ 2008ء کے بعد پہلی مرتبہ ایک دن میں اس قدر گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ نفٹی بھی دو سال نو ماہ کی اقل ترین حد پر بند ہوا۔
بیرونی اور ہندوستانی نژاد افراد کے بیرون ہند سے آنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کے ویزے منسوخ کردیئے گئے۔ سمندرپار کے شہری ویزا کے بغیر سفر کرسکتے ہیں لیکن ہندوستان میں اُن کی آمد پر 15 اپریل تک امتناع ہے۔ کابینی وزراء کیلئے بیرونی سفر ممنوع ہے۔ اس صورتحال کے سبب ٹور اینڈ ٹراویلس اور ہوٹل انڈسٹری فی الحال خطرے میں ہیں۔

کورونا وائرس کے تعلق سے جھوٹی خبروں سے ہوشیار رہئے۔ لطیفہ اور گیت بنانے کی سرگرمی روک دیجئے۔ بہتر ہے آپ اپنی صلاحیت اس وائرس کے تعلق سے بیداری پھیلانے میں لگائیے۔ خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں مگر چوکسی کے تعلق سے غفلت نہیں برتی جاسکتی ہے۔ کئی ممالک میں جہاں متاثرین کی تعداد شروع میں بہت کم تھی، یکایک مریض بڑھ گئے۔ ہندوستان میں متاثرین کی تعداد 126 ہے۔ الگ تھلگ رہنے اور گوشہ نشینی میں فرق ہے۔ جن افراد میں علامات واضح ہوجائیں، انھیں علحدہ گوشہ تک محدود کیا جاتا ہے۔ اور غیرواضح علامات والے بطور احتیاط لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ravish@ndtv.com