کون نشانہ پر ہے کس کے کیسے تیر کمان

   

پلوامہ پر بی جے پی کی انتخابی سیاست
کشمیری کیا ہندوستانی نہیں ؟

رشیدالدین
پلوامہ دہشت گرد حملہ پر بی جے پی نے انتخابی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔ اکثریتی طبقہ کے جذبات مشتعل کرتے ہوئے لوک سبھا چناؤ میں حاصل کرنا بی جے پی کا عین منصوبہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور ہر سطح پر بی جے پی قائدین پلوامہ کے جوانوں کی قربانیوں کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ انٹلیجنس اور سیکوریٹی ناکامیوں کا آئندہ اعادہ نہ ہو اور جوانوں کی زندگی کو مستقبل میں کوئی جوکھم نہ ہو۔ بی جے پی کو گزشتہ پانچ برسوں میں حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی کا موقع مل گیا۔ حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی یہ کوشش بھلے ہی کامیاب نہ ہو لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کشمیر کی بنیاد پر مخالف پاکستان جذبات کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ پلوامہ واقعہ کے فوری بعد سعودی ولیعہد پرنس محمد بن سلمان کے دورہ سے پلوامہ حملہ پر سیاست میں کمی آئی تھی لیکن ان کی واپسی کے بعد دوبارہ بیان بازی اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے نیوز روم عملاً وار زون اور وار روم میں تبدیل ہوگئے ۔ بعض اینکرس تو فوج کے سربراہ کی طرح احکامات جاری کر رہے ہیں۔ نیوز روم سے ملک کے دفاع سے متعلق پالیسی طئے کی جارہی ہے۔ چینلس کا مشاہدہ کریں تو لگتا ہے نہ جانے کس لمحہ جنگ چھڑ جائے ۔ کسی بھی ملک کے خلاف فوجی کارروائی سے قبل بین الاقوامی برادری کی تائید اور اس ملک کے خلاف ٹھوس ثبوت چاہئے ۔ ہندوستان نے پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف بعض تحدیدات عائد کی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو یکا و تنہا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ یہ کام محض الزام تراشی سے نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ٹھوس ثبوت کے ذریعہ ممکن ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ہندوستان سے ثبوت مانگا ہے ۔ پاکستان نہ سہی دیگر ممالک کو ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کا اعتبار قائم رہے۔ محض الزام تراشی سے ملک کا وقار مجروح ہوگا ۔ پرنس محمد بن سلمان کو پاکستان کے خلاف ثبوت پیش کرنے کا بہترین موقع تھا۔ وہ دونوں ممالک کے دوست ہی نہیں بلکہ محسن ہیں۔ بیرونی زر مبادلہ کا زائد حصہ سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے ۔ نریندر مودی نے پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر پرنس سلمان کا طیرانگاہ پر استقبال کیا اور ایک سے زائد مرتبہ بغلگیر ہوکر گرمجوشی اور خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ ویسے بھی نریندر مودی بیرونی مہمانوں کو گلے لگاکر خوش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جو کوئی نیا مہمان آئے یا پھر وہ کسی ملک کو مہمان بن کر جائیں ، وہاں کے سربراہ سے بغلگیر ہوتے ہیں لیکن محض بغلگیر ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ مودی نے عربی میں خیرمقدمی جملہ ادا کرتے ہوئے سعودی عرب سے دیرینہ روابط کی یاد تازہ کی اور پرنس سلمان کا دل جیتنے کی کوشش کی ۔ پلوامہ حملہ کیلئے پاکستان کے خلاف ثبوت پیش کرتے ہوئے سعودی عرب کے ذریعہ دباؤ بڑھانے کا کام لیا جاسکتا تھا۔ پرنس سلمان نے معاشی بحران کا شکار پاکستان کو یونان کے حالات سے بچا لیا ۔ چونکہ پاکستان کا انحصار بھی سعودی عرب پر ہے ، لہذا پرنس سلمان کے دورہ سے سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی تھی ۔ دونوں ممالک سے یکساں طور پر قربت کا مظاہرہ کرنے پرنس سلمان نے حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے ۔ پروگرام کے مطابق وہ پاکستان سے سیدھے ہندستان آنے والے تھے لیکن دونوں ممالک میں کشیدگی کو دیکھتے ہوئے وہ پاکستان سے ریاض لوٹ گئے اور وہاں سے ہندوستان آئے۔ اس اقدام سے سعودی عرب کے پاس ہندوستان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پرنس محمد بن سلمان کے دورہ کے فوری بعد پاکستان نے حافظ سعید کی تنظیموں پر پابندی عائد کردی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پرنس محمد بن سلمان نے اس سلسلہ میں ضرور کچھ ہدایت دی ہوگی۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی نے وزیراعظم کی جانب سے پرنس محمد بن سلمان کے استقبال کے سلسلہ میں گرمجوشی پر نکتہ چینی کی جو ناقابل فہم ہے۔ پلوامہ حملہ سے سعودی عرب کا کیا تعلق ؟ محمد بن سلمان کا کیا قصور ہے ؟ محمد بن سلمان نے خود بھی دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں 20 بلین ڈالر جبکہ ہندوستان میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ۔ اس کے باوجود کیا وہ شایان شان استقبال کے مستحق نہیں ہیں؟ اس معاملہ میں نریندر مودی کی ستائش کی جاسکتی ہے ، جنہوں نے پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے سعوی عرب کی اہمیت کو تسلیم کیا ۔ ان کے پیش نظر لاکھوں ہندوستانیوں کے مفادات ہیں جو سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں۔ پرنس محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی ترقی میں ہندوستانیوں کے ہنر اور صلاحیت کا اعتراف کیا ہے ۔ کانگریس کو ووٹ بینک سیاست سے گریز کرنا چاہئے ۔ کانگریس شائد بھول رہی ہے کہ نہرو ، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے دور میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے ہندوستان کے تعلقات مستحکم ہوئے تھے ۔
پلوامہ دہشت گرد حملے کو سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنے والی بی جے پی سے کوئی تو پوچھے کہ حملہ کیلئے جوشخص ذمہ دار ہے، اسے ہندوستان کی جیل سے کس نے رہا کیا تھا ۔ مولانا مسعود اظہر کو 1994 ء میں کشمیر میں گرفتار کر کے محروس رکھا گیا تھا۔ ڈسمبر 1999 ء میں انڈین ایرلائینس کی کھٹمنڈو سے دہلی کی فلائیٹ کا اغواء کرتے ہوئے قندھار لے جایا گیا۔ اغواء کنندوں نے جن تین دہشت گردوں کو رہا کرنے کی شرط رکھی ، ان میں مسعود اظہر بھی شامل تھا ۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی حکومت نے مسعود اظہر کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز اپنے ساتھ قندھار لے گئے۔ آج ہندوستان پر حملوں کیلئے مسعود اظہر کا نام بار بار آرہا ہے، تو بی جے پی رہائی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے تیار کیوں نہیں ؟ کانگریس حکومت نے مسعود اظہر کو رہا نہیں کیا بلکہ ملک میں بی جے پی برسر اقتدار تھی۔ مسعود اظہر اور اس کی تنظیم کی جانب سے ہندوستان کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں ہوئی ہیں یا آگے ہوں گی ، ان تمام کیلئے اصولی طور پر بی جے پی ذمہ دار ہے۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کو محض الزام تراشیوں کے بجائے پلوامہ حملے میں سیکوریٹی اور انٹلیجنس کی ناکامیوں کا جائزہ لینا ہوگا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ اندرونی طاقتوں نے سیکوریٹی فورسس کی نقل و حرکت کے بارے میں اطلاعات فراہم کی تھی ۔ دہشت گردوں کے پاس بھاری مقدار میں آر ڈی ایکس کی موجودگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں ۔ اس قدر بھاری مقدار میں بیک وقت آر ڈی ایکس کی منتقلی کس طرح ممکن ہوئی اور یہ کہاں سے آیا؟ ان سوالات کا مرکزی حکومت اور سیکوریٹی ایجنسیوں کو جواب دینا چاہئے۔ دہشت گرد کارروائی پر سیاست کرنا تو آسان ہے لیکن جس وقت یہ حملہ ہوا، وزیراعظم کسی ڈاکومینٹری فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ حملہ کے پانچ گھنٹے تک بھی فلم کی شوٹنگ جاری رہی۔ کیا وزیراعظم حملہ سے واقف نہیں تھے ؟ یا پھر ان کے نزدیک فوجی جوانوں سے زیادہ تشہیری فلم کی تیاری کی اہمیت ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم فوری کشمیر پہنچ جاتے جس سے ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں تعینات فوجی اور نیم فوجی دستوں کو حوصلہ مل سکتا تھا۔ برخلاف اس کے انہوں نے وزیر داخلہ کو روانہ کردیا۔ ہمالیہ کی برفانی چوٹی کا دورہ کرنے کا نریندر مودی بارہا ذکر کرتے ہیں لیکن سیکوریٹی فورسس کی مصیبت کی گھڑی میں وہ زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے نہیں پہنچے۔ وزیر دفاع نرملا سیتا رامن کو بھی کشمیر میں ہونا چاہئے تھا ۔ ا فسوسناک بات تو یہ ہے کہ پلوامہ حملہ پر حکومت کے طلب کردہ کل جماعتی اجلاس سے وزیراعظم دور رہے۔ حالانکہ یہ اجلاس ان کی صدارت میں ہونا چاہئے تھا ۔ پلوامہ حملہ سے فوج اور ملک کے عوام ابھی سنبھل بھی نہیں پائے کہ نر یندر مودی جنوبی کوریا کے دورہ پر روانہ ہوگئے۔ کیا یہ دورہ ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ ایسے وقت جبکہ ملک نازک موڑ پر ہے اور انٹلیجنس ایجنسیوں نے مزید دہشت گرد حملوں کی وارننگ دی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کا بیرونی دورہ کہاں تک حق بجانب ہوگا۔ وزیراعظم کو تاخیر سے سہی کشمیر کا فوری دورہ کرتے ہوئے سیکوریٹی فورسس میں اعتماد بحال کرنا چاہئے ۔ دہشت گرد حملہ کی ملک کا ہر شہری مذمت کر رہا ہے لیکن جموں اور ملک کے دیگر علاقوں میں کشمیری عوام پر حملوں کے بدبختانہ واقعات پیش آرہے ہیں۔ اس حملہ سے کشمیریوں کا کیا تعلق ؟ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیریوں پر حملہ دراصل اپنے شہریوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔ کشمیریوں پر حملوں کے ذریعہ دراصل پاکستان اور دہشت گرد تنظیموں کی مدد کی جارہی ہے جن کا منصوبہ یہی ہے کہ کسی بھی طرح ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جائے۔ دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کا حکومت استقبال کرتے ہوئے ہندوستانی شہریت کا پیشکش کرچکی ہے جبکہ کشمیری عوام جو کہ ہندوستانی شہری ہے ان پر مظالم اور حملوں میں روکنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ کیا یہ واقعات عوام میں دوریاں اور نفرت میں اضافہ نہیں کریں گے ؟ مرکز کو فوری طور پر گورنر کو برطرف کرنا چاہئے۔ جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خلاف زبانی جمع خرچ کے بجائے اگر واقعی کارروائی میں سنجیدگی ہو تو سب سے پہلے سفارتی تعلقات ختم کرے کیونکہ محض دھمکیوں سے عوام میں شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
کون نشانہ پر ہے کس کے کیسے تیر کمان
میرا فیصلہ کرنے والا میرا ہی متدان