کووڈ۔ 19 اور تباہ ہوتا دیہی ہندوستان

   

برکھا دت
دو مختلف ریاستوں کے دو مواضعات سے تعلق رکھنے والے پردھانوں نے دیہی ہندوستان میں جو خاموش المیہ ہے، اسے سمجھنے کیلئے ایک ہی سمت کی جانب اشارہ کیا، حالانکہ ان دونوں پردھانوں کا تعلق جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو اور دوسرے کا تعلق شمالی ہند کی ریاست اترپردیش سے ہے۔ اب جبکہ حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کا بدترین دور ختم ہوچکا ہے اور نتیجہ میں ہمارے شہروں اور ہمارے گاؤں میں لاک ڈاؤن ختم کرنا بھی شروع کردیا گیا ہے، لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ حکومت، کورونا کی دوسری لہر کے ختم ہونے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن مواضعات میں ہمارے شہری دم توڑ رہے ہیں اور وہاں مرنے والے بے شمار ہے یعنی کثیر تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں اور مرنے والوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات منظر عام پر آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں پوری طرح کووڈ۔ 19 سے متاثر ہونے کی علامتیں پائی گئی ہیں۔ ان علامتوں میں آکسیجن کی سطح کا گھٹنا بھی شامل ہے۔

زمینی حقائق کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر چھوٹے چھوٹے گاؤں میں یہاں تک ریاستوں کے دور افتادہ مقامات پر مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ماہ مئی میں 20 تا 40 اموات درج کی گئیں۔ اگرچہ شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہمارا دیہی نظام، صحت عامہ اور نگہداشت صحت کی بنیادی سہولتیں بہتر ہیں، لیکن کورونا وائرس کے معائنوں اور ٹیکوں اندازی کے معاملے میں بلالحاظ جغرافیائی حدود تمام دیہی ہندوستان کا برا حال ہے۔ ٹاملناڈو کے چینا سندی رام پنچایت سات مواضعات پر مشتمل ہے۔ پنچایت کے صدر جئے کمار ریڈی نے مجھے بتایا کہ پچھلے دو ماہ کے دوران مرنے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوا۔ نتیجہ میں لوگ خوف کے مارے قریبی ٹاؤنس اور شہروں میں پناہ لینے کیلئے مجبور ہوگئے کیونکہ ان کے خیال میں صرف چھوٹے اور بڑے شہروں میں ہی ٹیکہ لینے کی امید پائی جاتی ہے۔ اس پنچایت میں جو لوگ فوت ہوئے ہیں، ان میں ایک 27 سالہ نوجوان وجئے بھی شامل ہے جو حال ہی میں اسے ایک خانگی ہسپتال سے یہ کہتے ہوئے ڈسچارج کیا گیا تھا، اب اس کی صحت ٹھیک ہوگئی ہے، اور وہ گھر جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈسچارج ہونے کے ایک دن بعد ہی صبح اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ہم نے شوبھا سے ملاقات کی جو ردریش کی بہن ہے۔ ردریش وہ نوجوان ہے جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد بنگلورو سے اپنے آبائی مقام ہسور اس امید پر سفر کیا تھا کہ اسے اپنے گھر کے قریب کوئی اسپتال میں بستر مل جائے گا، لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ 250 کیلومیٹر فاصلہ اس نے ایمبولینس میں طئے کیا اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ایمبولینس میں ہی موت ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسے ایسا آئی سی یو بیڈ نہیں مل سکا جہاں آکسیجن کی بھی سہولت موجود ہو۔ ان تمام واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ غریب شہریوں کو کس طرح پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بہرحال ردریش کی بہن شوبھا نے بتایا کہ غریبوں کا خیال کوئی بھی نہیں کرتا، کسی کو بھی غریبوں کی پرواہ نہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگی اور روتے روتے وہ الفاظ بھی ادا نہیں کرپا رہی تھی۔ جئے کمار ریڈی نے مجھے بتایا کہ ہمیں ٹیکے چاہئے، ہم تمام کسان ہیں، غریب ہیں، کیا ہمیں مکمل طور پر نظرانداز کردیا جائے گا؟

کورونا وائرس کی وباء کے دوران ہم نے شہروں پر تو توجہ دی لیکن دیہی ہندوستان کو فراموش کردیا اور ہندوستان کے اس اہم ترین حصے کو نظرانداز کرکے حکومت نے اپنے ہی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ ریڈی نے مزید بتایا کہ ہر طرف رنج و الم ہے۔ ریڈی کا کہنا بالکل صحیح ہے، کیونکہ ہمارے گاؤں اور دیہاتوں میں رنج و الم کی ایک لہر چل پڑی ہے۔ بری بات یہ ہے کہ دیہاتوں میں مرنے والوں کا سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔ اس کی مثال ہمیں بہار سے ملتی ہے۔ بہار سے یہ تشویشناک خبر ملی ہے کہ سرکاری عہدیداروں نے پہلے اموات سے متعلق جو ڈیٹا پیش کیا تھا، اس پر نظرثانی کی ہے اور نیا ریکارڈ منظر عام پر آیا ہے، اس کے مطابق وہاں ہزاروں لوگ کورونا وائرس کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں۔ اس طرح اندازاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ہر روز 6 ہزار شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ دوسری طرف دیہاتوں میں ٹیکے ہیں اور نہ معائنوں کا انتظام۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کورونا کی دوسری لہر سے بھی موثر انداز میں نمٹنے میں ناکام رہے۔ اس کے باوجود آج کل کورونا وائرس متاثرین اور کورونا سے مرنے والوں کی تعداد میں جو گراوٹ دکھائی جارہی ہے، یومیہ اسے جدول کے ذریعہ لوگوں کیلئے اسے پیش کیا جارہا ہے، اس سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار زیادہ تر شہروں سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ ریڈی نے ہسور جیسے گاؤں میں 20 کووڈ اموات کی توثیق کی اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ تمام مہلوکین کو کووڈ کے باعث مرنے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے۔ وارناسی کا ایک چھوٹا سا گاؤں رامنا ہے، جو شہروں سے کئی 100 کیلومیٹر دور ہے۔ پارلیمنٹ میں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی وارناسی کی نمائندگی کرتے ہیں، موضع رمنا کے پردھان کے مطابق سرکاری اعداد و شمار میں جو اموات بتائی جارہی ہیں، اس سے دگنی تعداد میں وہاں اموات ہوئی ہیں۔ چند ہفتوں کے دوران ہی کم از کم 40 لوگ کورونا سے متاثر ہوکر فوت ہوئے۔ ہم نے رام گوپال سے بھی بات کی۔ ان کے دو ارکان خاندان ایک چچا اور دادا انتقال کرگئے ہیں۔ رام گوپال نے ہمیں میڈیکل پیپر ورک دکھائے۔ ایک کیس میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کیا گیا اور دوسرے میں کووڈ۔ 19 موت کی وجہ نہیں لکھی گئی بلکہ Typical Pneumonia بتائی گئی، حالانکہ دونوں کی موت کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ہوئی۔ اترپردیش کے قنوج میں واقع ایک شمشان گھاٹ کے بارے میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے ان کے مواضعات سے ہر روز 4 تا 5 ارتھیاں اُٹھائی جارہی ہیں، لیکن اکثر اموات کو حکام کورونا اموات تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں اور اموات کی وجوہات کورونا کے بجائے دوسری بتائی جارہی ہیں۔ اگر ہم مواضعات میں ہونے والی اموات کو صحیح طور پر عوام اور میڈیا کی نظروں میں لائیں تو پتہ چلے گا کہ ہر روز ملک میں کورونا سے کتنے لوگ متاثر ہورہے ہیں اور کتنے لوگ مررہے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے موجودہ ڈیٹا میں صرف اور صرف شہروں میں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وائرس کا حقیقی خطرہ کیا مواضعات نہیں پہنچا؟

دوسری طرف خاص طور پر شمالی ہند میں پرائمری ہیلتھ کیر سنٹر س پر تالے پڑے ہیں یا پھر وہاں کوئی پرسان حال نہیں۔ کووڈ ویکسین یا پھر آر ٹی پی سی آر ٹسٹنگ کٹس کو بھول جایئے، ان پرائمری ہیلتھ سنٹرس میں ڈاکٹرس تک نہیں ہیں۔ 2020ء میں ہم نے دیکھا کہ ہندوستان کے انتہائی غریب شہری یعنی نقل مکانی کرنے والے مزدور ہزاروں کی تعداد میں شہروں سے پیدل ہی اپنے گاؤں کیلئے روانہ ہوئے۔ ان میں ایسے بھی تھے جن کے پیروں میں چپل تک نہیں تھی۔ 2021ء میں غریبوں سے زیادہ ایسا لگتا ہے کہ دولت مند اور متوسط ہندوستانی متاثر ہوئے ہیں اور یہ وائرس ان کے گھروں تک پہنچ گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کم آمدنی والے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ غربت نے ان کے غم اور جانی و مالی نقصانات پر پردہ ڈال دیا۔