کووڈ بحران میں فضائی سفر محفوظ طریقہ حمل و نقل

   

جینت سنہا

ہندوستانی آسمان خالی ہیں، فضائی ٹریفک پوری طرح بند ہوچکی ہے۔ ملک کے آسمانوں پر کبھی بڑے پیمانے پر طیارے اڑا کرتے تھے اور ان طیاروں کے اطراف پرندوں کے غول کے غول دکھائی دیتے تھے۔ یہ تو آسمانوں کی بات رہی جبکہ اب زمین پر مختلف ملکوں اور علاقوں کا سفر کرنے والے مسافر اس بات کو لیکر تشویش میں مبتلا ہیں کہ وہ کب اور کیسے دوبارہ طیاروں میں سفر کریں گے۔ کورونا وائرس کی وباء سے قبل فضائی سفر اکثر لوگوں کے دسترس میں تھا۔ بعض لوگ اس سفر کے متحمل تھے۔ فضائی سفر اس قدر آسان تھا کہ ہوائی چپل والے بھی ہوائی جہاز پر چل رہے تھے لیکن بدقسمتی سے لاک ڈاون کے دوران ان تمام پر اچانک روک لگ گئی۔ سب ساکت و جامد ہوگیا۔ آپ کو بتادوں کہ ہندوستان میں تجارتی بنیاد پر چلائے جانے والے طیاروں کی تعداد تو 670 ہے لیکن ان میں سے چند طیارے اور مال بردار طیارے ہی چلائے جارہے ہیں۔ وہ بھی دوسرے ملکوں میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو واپس لانے اور سامان لانے اور لے جانے کے لئے جبکہ مابقی تمام طیارے ایرپورٹس پر ٹھہرائے گئے ہیں۔
جہاں تک حال کا سوال ہے ایک موہوم حال کے باوجود ہندوستانی شہری ہوابازی کے نظام کا مستقبل روش دکھائی دیتا ہے اور ایسا کیوں تو اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ فضائی سفر، حادثات کے معاملہ میں خاص طور پر طویل فاصلہ کے حمل و نقل کا ایک محفوظ طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک کورونا وائرس انفکشن سے جڑے جوکھم اور خطرات کا سوال ہے۔ اس میں بھی فضائی سفر محفوظ طریقہ حمل و نقل ہے، اس لئے مسافرین ریل اور کار کی بجائے فضائی سفر کو ترجیح دیں گے۔ ایک تو اس سے وقت کی بچت ہوگی دوسرے کورونا وائرس کے انفکشن سے بھی یہ سفر محفوظ ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں خطرناک حد تک کمی کے نتیجہ میں فضائی سفر مزید سستا ہو جائے گا اور تیسری بات یہ ہے کہ فضائی سفر توقع ہے کہ فیصلہ کن انداز میں فضائی مرکز سے روگردانی کرتے ہوئے بالراست کی بجائے راست بین الاقوامی پروازوں کے رجحان کو اپنائے گا۔ بعض پوائنٹ ٹوپائنٹ انٹرنیشنل فلائٹس کو فروغ حاصل ہوگا۔ مابعد کورونا وائرس دنیا میں ہندوستان کا شہری ہوائی نظام زبردست فروغ پانے والا ہے۔
ڈرائیونگ اور ٹرین کے ذریعہ سفر کی بہ نسبت فضائی سفر کو طویل فاصلہ طئے کرنے کے لئے حمل و نقل کا ایک محفوظ ذریعہ یا Mode تسلیم کیا گیا ہے۔

اور اس طرح کے زیادہ تر جائزے امریکہ اور یوروپی ممالک کے لئے گئے یہ بات ہندوستان کے لئے بھی صادق آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کا ایر سیفٹی ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ ہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کی اس دنیا میں پاسنجرس کو انفکشن کے پھیلنے کے جوکھم کی اب فکر بھی لاحق ہے۔
طیاروں میں ہوا کا دوران ان بہترین اسپتالوں کے برابر ہے جو وائرل انفکشن کے جوکھم کو کم کرتے ہیں۔ مزید براں یہ کہ اس سفر میں بحیثیت مجموعی لوگوں کے وائرس یا انفکشن کی زد میں آنے کا امکان بھی بہت کم ہے کیونکہ ریل اور کار کے ذریعہ سفر منزل مقسود پر پہنچانے کے لئے طیارے کے ذریعہ سفر سے 10 گنا زیادہ وقت لیتا ہے۔
فضائی سفر کا جب ذکر آتا ہے تو طیاروں میں استعمال ہونے والے جٹ فیول کی قیمتوں کے بارے میں تبادلہ خیال شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں تک عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتوں کا سوال ہے تیل کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ قیمتیں 60 ڈالرس فی بیارل سے گرکر 30 ڈالرس فی بیارل ہوگئیں ہیں۔ پرواز پر جو لاگت آتی ہے اس میں جٹ فیول کا تقریباً 30-40 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک ایوی ایشن ٹربائن فیول پر محاصل میں اضافہ نہیں ہوتا تب تک اس رجحان سے پروازوں کی لاگت میں اچھی خاصی گاروٹ آئے گی۔ اس کے علاوہ الیکٹرک کاروں اور دو پہیوں کی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شہری ہوابازی کے فیول کی قیمتیں مستقبل قریب میں کم ہی رہنے کا امکان پایا جاتا ہے۔
راست عالمی پروازیں ایرلائنز کو راست فائدہ پہنچائیں گی۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء سے ہوسکتا ہے کہ شہری ہوابازی کے عالمی مراکز کی اہمیت کو کم کردے گی۔ تمام معیشتوں کی شہروں جیسے طیرانگاہوں کے اطراف و اکناف تعمیر عمل میں آئی ہے جو دنیا بھر سے مسافرین کو لاتے ہیں اور پھر ان کے منزل مقصود سے مربوط کرتے ہیں۔

طیرانگاہیں دراصل 21 ویں صدی کے پرتعیش شاپنگ کا فیوژن، پر رونق پارکس دل کو بہلانے والی تفریحی مقامات، جدید طرز پر سجائے سنوارے گئے ہوٹلس اور قابل قبول کھانوں اور مسافرین کے مصارف سے بہرور ہونے کے مقامات بن گئے ہیں۔ بد قسمتی سے مذکورہ خوبیاں انہیں انتہائی سنگین متعدی امراض کے پھیلاؤ کے لئے حساس بھی بنادیتی ہیں۔
فضائی مسافرین اس قسم کے مرکزی طیرانگاہوں کو نظرانداز کرنے کو ترجیح دیں گے اور اپنے منزل مقصود جلد سے جلد اور بناء کسی تکلیف کے پہنچیں گے۔ یہ ہندوستانی شہری ہوابازی کے نظام کے لئے اچھی خبر ہے۔ بعض مرکزی ایرپورٹ سے جڑنے اور پھر وہاں سے یوروپ، جاپان، امریکہ یا آسٹریلیا کا سفر کرنے کی بجائے ان رجحانات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری ایر لائنز طویل فاصلہ کا سفر کرنے والے زیادہ نشستوں کے حامل طیارے اپنے طیاروں کے قافلہ میں شامل کرنا پسند کریں گے۔ فی الوقت ہماری ایر لائنز میں بڑے بڑے طیارے نہیں ہیں۔
آج ہماری ہندوستانی ایر لائنز صرف 20-30 فیصد بین الاقوامی مسافرین کے لئے ہندوستان سے دوسرے ملکوں کو پروازیں چلاتی ہیں۔ ہم امید کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس تعداد میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگا اور ہندوستانی مسافرین کی اکثریت انڈین ایر لائنز پر عالمی سفر کریں گے۔فطری طور پر اس سے ہمارے طیرانگاہوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ڈیوٹی فری شاپنگ ہندوستانی طیرانگاہوں پر کی جائے گی مسافرین انٹرٹینمنٹ اور کھانوں سے مقامی سطح پر محفوظ ہوں گے جس سے آمدنی میں اضافہ ہوگا اور ہندوستان بھر کے ایرپورٹس میں ملازمتوں کے مواقع بڑھیں گے۔

ہندوستان کا موقع: طیرانگاہ اور طیارہ میں پاسنجر تجربہ بھی بہت ہی سہل ہونے کا امکان ہے۔ سماجی دوری کے اصول کی پاسداری کی جائیگی اور کئی کام خود کار ہوں گے۔ نئے Digi یاترا سسٹم نافذ کیا جارہا ہے جس کے ساتھ ہی مسافرین کسی بھی سیکوریٹی اسٹاف کے رکن یا گیٹ ایجنٹس کے قریب آئے بناء چیک ان، سامان کی لوڈنگ اور طیاروں میں سوار ہوسکیں گے۔ریئل اور ڈائننگ اسٹیبلشمنٹ یا ادارہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کے اسٹورس میں ہجوم نہ ہو۔ سیکوریٹی چیکنگ ابتداء میں آہستہ آہستہ عمل میں آئے گی لیکن باڈی اسکیانرس عملاً تلاشی کا عمل بڑی تیزی سے انجام دیں گے۔ طیارہ میں سوار ہوتے وقت پاسنجرس فطری طور پر اپنے ماسک اور دستانے پہنے ہوں گے۔ جبکہ طیارہ کا عملہ شاید PPE کٹس پہنا ہوا ہوگا۔سال 2019 میں ہندوستانی ایرلائنز نے 20 ملین پاسنجر ٹرپس کئے جن میں 144 ملین گھریلو ٹرپس شامل ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستانی ریلوے میں مالی سال 2019 میں تقریباً 180 ملین اپر کلاس اور 1.5 ارب سیکنڈ کلاس میل ؍ ایکسپریس پاسنجرس ٹرپس درج کی گئیں۔ ایسے میں آئندہ چند برسوں میں فضائی سفر کے غیر معمولی انداز میں فروغ پانے کے کافی مواقع ہیں۔ امید ہے کہ ہندوستانی آسمان بہت جلد جٹ انجنوں کی مسرور کن آواز سے گونجیں گے۔