کووی شیلڈ کے ذیلی اثرات ٹیکہ لینے والوں میں ہارٹ اٹیک

   

روش کمار
کورونا وائرس سے بچاو کا ٹیکہ تو آپ نے لگوایا ہی ہوگا اب اس کے بارے میں ایک خبر آئی ہے ٹیکہ بنانے والی ایک کمپنی Astra Zeneca نے عدالت میں مان لیا ہیکہ کچھ معاملوں میں اس کے ٹیکہ کا ذیلی اثر (Side Effect) ہوتا ہے اسی کمپنی کا ٹیکہ بھارت میں آپ کو کووی شیلڈ Covishieldکے نام سے دیا گیا ۔ بھارت میں دو ارب سے زیادہ ٹیکے لگے ہیں ان میں سے ایک ارب 70 کروڑ ٹیکے تو صرف کووی شیلڈ کے تھے کیا یہ آٖ سب کیلئے فکرمندی کی بات نہیں ہے ؟ لیکن جب تک کوئی سائنسی ثبوت و دلائل نہ ہوں ٹھیک سے وضاحت نہ آجائے آپ کو جلد ہی نہیں کرنی چاہئے ۔ بے شک حکومت کو اس مسئلہ پر عوام کو مطمئن کرنا چاہئے کہ یہ جاننے کے بعد اُسے کیا کیا کرنا چاہئے ۔ صرف اُسے شاذ و نادر کہنا کافی نہیں ، دیکھنا چاہئے کہ کتنے لوگوں کو اس کے ذیلی اثرات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک اور Brain Ham ہوجاتا ہے ۔ ہم چاہیں گے کہ آپ کو کورونا وائرس کی عالمی وباء کے وقت کی کچھ پرانی باتیں بھی یاد دلادیں کہ ٹیکہ ہمیشہ مفت نہیں تھا ۔ اپوزیشن کی پہل اور دباؤ کے بعد مفت دیا گیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جنوری 2020 میں ٹیکے لگنے شروع ہوئے کووی شیلڈ کا ٹیکہ لگانے لوگ قطاروں میں لگ جاتے تھے خود سے مانگ کرتے تھے لیکن برطانیہ کی عدالت سے یہ خبر آئی ہے لوگ طرح طرح کے خدشات اور وہم و گمانوں میں زندگی گزارنے لگ گئے ہیں حالیہ دنوں میں ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات اور لوگوں کا ٹیکہ کے ذیلی اثرات سے اسے جوڑ دینا ایک اور بات ٹیکے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کے واقعات میں اصافہ ہوا ہے یا معمول کے مطابق ہی ہیں اس پر بھی ہم کچھ بولنے سے گریز کریں گے کیونکہ جس ملک میں مردم شماری تک نہیں ہوئی ہو اس ملک میں اس کا ڈیٹا صحیح ہوگا اس کی امید کم از کم ہمیں نہیں ہے ۔ کووی شیلڈ ٹیکہ بنانے والی کمپنی Astra Zeneca نے برطانیہ کی عدالت میں مانا ہیکہ اس کے ذیلی اثرات یہ ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں اورپلیٹ لیٹس کم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے Cardiac Arrest ہوتا ہے جسے عام زبان میں لوگ ہارٹ اٹیک کہتے ہیں اس کے علاوہ برین ہمیرج کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے اس بیماری کا سائنسی نام Thrombosis with Thrombocytopenia Syndrome (TTS)ٹیکہ بنانے کے تین سال بعد کمپنی نے پہلی بار یہ قبول کیا ہیکہ اس کے ٹیکہ سے شاذ و نادر معاملوں میں TTS کا خطرہ ہوسکتا ہے ۔ Astra Zeneca پر کئی لوگوں نے مقدمات درج کروائے کہ ان کے ٹیکے سے خطرناک بیماری اور موت ہوسکتی ہے صرف برطانیہ میں ہی پچاس سے زائد کیس درج کروائے گئے ہیں اور سو ملین پاؤنڈ کے ہرجانہ کا کمپنی پر دعوی کیا گیا ہے ۔ اپریل 2021 میں ایک برطانوی شہری جیمی اسکاوٹ کے دماع میں ٹیکہ لگانے کے فوری بعد خون کا لوتھڑا بن گیا اور تین بار ان کی جان جاتے جاتے بچی یعنی وہ مرتے مرتے بچ گئے جیمی اسکاوٹ نے Astra Zeneca پر کیس کردیا کہ اس کے ٹیک سے خاص طرح کا سائیڈ ایفیکٹ ( ذیلی اثر ) ہوسکتا ہے ، ویسے برطانیہ میں ذیلی اثرات کی بات ٹیکہ کے لانچ کے وقت سے ہی ہونے لگی تھی اس وقت یہ تجویز پیش کی گئی کہ 40 سال سے کم عمر کے لوگوں کو احتیاط سے ایک اور ٹیکہ دیا جائیہ گا کیونکہ یہ مانا گیا کہ ٹیکہ کا خطرہ کوووڈ سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے ۔ عدالت میں وکیلوں نے کہا کہ جتنی امید کررہے تھے ٹیکہ اتنا محفوظ نہیں نکلا ۔ برطانیہ کی میڈیکل اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی یعنی MHRA کے حکام کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں کم از کم 81 اموات ایسی رہی جو ٹیکے کے ری ایکشن سے ہوئی ہیں ۔ مرنے والوں میں پلیٹ لیٹس کم ہونے کے علاوہ خون کے لوتھڑے بھی بننے لگے تھے جن لوگوں میں اس طرح کا ری ایکشن دیکھا گیا ان میں سے ہر پانچویں فرد کی موت ہوگئی یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں ۔ ڈسمبر 2020 میں Astra Zenecaنے اپنے ٹیکہ کا ایمرجنسی لانچ کیا اس وقت کے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ یہ برطانیہ کی سائنسی و طب کی کامیابی ہے کئی قسم کی ریسرچ میں بھی بتایا گیا تھا کہ Astra Zeneca کا بنایا گیا ٹیکہ بالکل محفوظ ہے سب سے محفوظ ہے ۔ دنیا بھر کے ریگولیٹرس نے کہا کہ ٹیکہ لگانے سے جوکھم کم رہتا ہے ٹیکہ نہیں لگوانے سے زندگی کو سنگین خطرات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے محفوظ بتایا تھا اس کے بعد کچھ ہی ماہ میں یعنی مارچ 2021 میں ہی ایک نئی قسم کی بیماری کی پہچان کرلی گئی اور اس شاذ و نادر بیماری پر شور شروع ہوگیا ۔ اس کا نام پڑا Vaccine – Induced Immuna Thrombocytopenia & Thrombosis (VITT)جولائی 2021 میں ہی ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوچکا تھا جس میں بتایا گیا کہ ٹیکہ لینے والوں میں 5 سے 24 دنوں کے اندر VITT کے کیس آنے لگ جاتے ہیں ۔ آسٹریا ، ناروے اور جرمنی میں ایسے کئی کیس ملے ۔ متاثرین کے وکلا نے دعوی کیا کہ VITTایک طرح سے TTS کی ہی شکل ہے جس سے خون جم جاتا ہے ۔ اس بارے میں مزید جاننے کیلئے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کیجئے ۔ کافی وقت سے Astra Zeneca یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کہ اس ٹیکہ سے ایسی کوئی بیماری ہوسکتی ہے ایک سال بعد اب اس کمپنی نے مانا ہے کہ اس کے تیار کردہ ٹیکے کے ذیلی اثرات سے ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے ۔ برطانیہ کے شہری جیمی اسکاوٹ کے کیس میں کمپنی نے کہا کہ ہم نہیں مانتے کہ ٹیکہ کی وجہ سے جنریک سطح پر جسم میں خون کے لوتھڑے بن جانے کی صورتحال پیدا ہوتی ہے لیکن فبروری 2024 میں یہی کمپنی اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوجاتی ہے اور یہ مان لیتی ہے کہ ان کے ٹیکے سے کچھ معاملوں میں پلیٹ لیٹس کم ہوسکتے ہیں اور خون کے لوتھڑے جم سکتے ہیں کیوں ہوتا ہے ایسا اس بارے میں ابھی کچھ پتہ نہیں ، کمپنی نے کہا ہیکہ بناء ٹیکہ کے بھی خون جم سکتا ہے خون کے لوتھڑے بن سکتے ہیں اس لئے ہر کیس کی الگ الگ جانچ کے بعد ہی پتہ چل پائے گا کہ ایسا کیوں ہوا۔ کمپنی کے خلاف وکیلوں نے کہا ہیکہ ان کے ٹیکے میں خامیاں ہیں اور اس کے اثرات کو لیکر ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر دعوے کئے گئے ۔ Astra Zeneca نے وکیلوں کے ان دعووں سے انکار کیا ہے ۔ کمپنی یہ بھی کہتی ہے کہ اس نے اپریل 2021 میں ہی اپنے پراڈکٹ میں یہ اطلاع جوڑ دی تھی کہ ٹیکہ پوری طرح محفوظ ہے لیکن کچھ شاذ و نادر معاملوں میں خون کا لوتھڑا بن سکتا ہے جیمی اسکاوٹ کے کیس کے جواب میں کمپنی نے یہ بات مانی ہے کہ اس کے ٹیکے کاسائیڈایفیکٹ ہے مگر کمپنی نے یہ بات قبول کرلی ہے کہ اس کے ٹیکہ سے بیماری اور موت ہوسکتی ہے تو اسے کروڑوں کا ہرجانہ ( معاوضہ ) دینا ہوگا حالانکہ کمپنی کو حکومت کی جانب سے تحفظ حاصل ہے تو پیسہ حکومت دے گی لیکن حکومت نے فی الحال اس معاملہ میں کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے سے انکار کردیا ہے بات یہاں ہرجانہ کی نہیں ہے جنہوں نے ٹیکہ لیا ہے ان کے خدشات کی ہے انہیں وجہ بے وجہ یہ ڈر ہوسکتا ہے کہ کووی شیلڈ کا ٹیکہ لگایا ہے تو وہ محفوظ بھی یا نہیں ؟ کیا ہارٹ اٹیک کا خطرہ انہیں بھی ہوسکتا ہے ؟ کورونا کے وقت ٹیکہ کو لیکر دو طرح کی رائے دنیا میں قائم ہوئی تھی جو لوگ ٹیکہ پر سوال اُٹھارہے تھے انہیں قانون سے ڈرایا جارہا تھا ۔ سائنس کا مخالف بتایا جارہا تھا اس کے Anti Vaccer Vaccine Hesitancyجیسے الفاظ کا استعمال ہورہا تھا ٹیکہ مخالفین میں بھی کئی زمرہ جات تھے ۔ 2021 میں مایا گولڈ بنرگ کی ایک کتاب آئی Vaccine Hesitency Publec Trust Ezapertese and the War On Science گولڈن بنرگ کا کہنا ہے کہ لوگوں میں ٹیکہ کو لیکر شکوک و شبہات اس لئے پیدا ہوئے کیونکہ سائنسداں اپنی رائے کو عوام کے سامنے اچھی طرح نہیں رکھ پارہے تھے وہ یہ مان کر چل رہے تھے کہ لوگ اپنے آپ سمجھ جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا کئی لوگوں کو اپنے ڈاکٹر پر تو بھروسہ ہوسکتا ہے لیکن ہیلتھ سسٹم پر نہیں ۔ کئی ٹیکہ مخالفین مذہبی رسومات و روایات کے مطابق ٹیکہ کی مخالفت کرنے لگے کچھ سائنسی بنیادوں پر مخالفت کرنے لگے اور کچھ سائنسی بنیادوں پر سوال کررہے تھے ان کا ماننا تھا کہ ٹھیک سے جانچ پڑتال کے بعد ہی ٹیکہ کو لانچ کرنا چاہئے نہ کہ جلدی میں وہ اس بات کو لیکر اور مطمئن ہونا چاہئے تھے کہ ٹیکہ کو لانچ کرنے میں ہر قسم کی احتیاط برتی گئی ہے ویسے بھارت میں بھی Vaccine Wak نامی ایک بے کار سی فلم بنی تھی ۔ برطانیہ اور امریکہ میں ویکسین کی دریافت ہوئی مگر اُن ملکوں میں صدر اور وزیراعظم کو لیکر فلم نہیں بنائی گئی ۔ بھارت میں پروپگنڈہ فلم بنانے کا وقت بھی ہے پیسہ بھی ہے اور بھولے بھالے بیوقوف فلم دیکھنے والوں کی کوئی کمی بھی نہیں ، ہم نے کووڈ کے دوران کئی پروگرام کئے اس دوران ہمارے کچھ ماہرین نے ٹیکہ کی تائید و حمایت کرتے ہوئے بھی کہا کہ جو لوگ سائنسی بنیادوں پر ٹیکہ پر سوال اُٹھارہے ہیں انہیں بھی سننے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہم ہر پہلو جان لینے کا دعوی نہیں کرسکتے لیکن کورونا کے وقت کئی حکومتوں نے کئی طرح سے لوگوں کو مجبور کیا کہ ٹیکہ لینا ہے ۔ ان سوالوں کو نہیں سنا گیا ۔ پیچھے کی طرف مڑکر دیکھئے تو کورونا تیزی سے پھیل رہا تھا ، وباء کو روکنے کا راستہ بھی یہی تھا کہ ٹیکہ لگے اور ٹیکہ آئے تب ملک اور معاشرہ کی ذمہ داری بن گئی کہ ٹیکہ لیں اور دوسرے کو کووڈ ہونے سے روکیں جو بھی اس کی مخالفت کرتا تھا اس وقت اس کا مذاق اُڑایا جاتا تھا ۔ دنیا بھر میں ٹیکہ کی مخالفت الگ الگ وجوہات سے ہوئی مگر بھارت میں زیادہ تر مخالفت نہیں ہوئی لوگوں نے پورے جوش و خروش اور بھروسہ کے ساتھ ٹیکے لگوائے لیکن جب ٹیکہ لگوانے کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے یعنی تیسرا Dose لگنے لگا تب وہ ابھیان ٹھنڈا پڑ گیا کب بند ہوگیا پتہ نہیں چلا تب ہارٹ اٹیک سے مرنے کی خبریں آنے لگیں تب ٹیکہ کے اثر کی بات لوگ کرنے لگ گئے اور ڈرنے بھی لگے گئے ۔ اکٹوبر 2023 میں نوراتری گربھے کے پروگرامس میں ہونے والی اموات کے درمیان مرکزی وزیر صحت منڈاویا نے ICMR کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انتباہ سے پر بیان دے دیا کہ جن لوگوں کو سنگین کووڈ ہوا تھا انہیں کووڈ سے ٹھیک ہونے کے بعد کم از کم ایک دو سال سخت احتیاط برتنی چاہئے اور ضرورت سے زیادہ کسرت کرنے سے بچنا چاہئے تاکہ دل کا دورہ پڑنے کے واقعات سے بچا جاسکے اس بیان سے خدشات پھیل گئے کہ کیا کووڈ کے بعد ہارٹ اٹیک کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے بعد میں جب ICMR کی یہ رپورٹ جاری ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلب پر حملوں سے اچانک ہونے والی اموات اور کووڈ ٹیکہ کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے اس کی وجہ کووڈ کے بعد اسپتال میں ہوئے علاج اور فیملی ہسٹری کھانے پینے کی عادات اور حد سے زیادہ کسرت کو بتایا گیا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال گجرات میں ڈانڈیا کرتے وقت کئی لوگ ہارٹ اٹیک سے مارے گئے NCRB کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں دل کے دورہ سے ہونے والی اموات میں 12 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ۔ میڈیا میں گریہ کے دوران 22 لوگوں کے مرنے کی خبریں شائع ہوئی ہیں ۔ جنوری 2023 کی یہ رپورٹ کئی مقامات پر شائع ہوتی ہے کانپور میں ایک دن میں 23 لوگوں کی موت ہارٹ اٹیک اور دماغ پر حملہ سے ہوگئی تب اس کے پیچھے کارفرما وجہ سردی بتائی گئی کچھ دنوں کے بعد رپورٹ شائع ہوتی ہے کہ ایک ہفتہ میں کانپور میں 98 لوگوں کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی 44 لوگ اسپتال میں مرے جبکہ 54 لوگ علاج سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے جس کے ساتھ ہی ٹیکہ کے اثر کی چرچا ہونے لگ گئی ۔ ممبئی کے اخبارات میں بھی ہارٹ اٹیک کے واقعات کو لیکر رپورٹس شائع ہوئی ہیں ۔ ٹائمس آف انڈیا کی مالتی ایئر کی ایک رپورٹ ہیکہ بمبئی میں 2022 میں ہر دن 26 لوگ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے ۔ مالتی ایئر کی ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی لوگ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے خاص طور پر نوجوان ڈانس کرتے ہوئے کھیلتے ہوئے دوڑتے ہوئے ہارٹ اٹیک سے دم توڑ گئے ۔