کوہیر میں ادرک کے کسانوں کو زبردست نقصان

   

آلو کے کسان بھی پریشان ، کولڈ اسٹوریج کا قیام ضروری ، رکن پارلیمنٹ سے نمائندگی بے فیض
کوہیر /12 اکٹوبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) ریاست تلنگانہ کے علاوہ دیگر مقامات میں کوہیر کا نام سنتے ہی ادرک اور جام کا تصور اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آجاتا ہے ۔ اس علاقے کی سرخ لال مٹی میں پیدا ہونے والی فصل میں قدرت نے ایک عجیب قسم کا ذائقہ رکھا ہے ۔ لیکن یہاں کے کسان گذشتہ 4 سالوں سے ادرک کی قیمت کو لیکر کافی پریشان ہیں ۔ یہاں ادرک کے کسانوں نے بتایا کہ ایک ایکر اراضی پر ادرک کی تخم ریزی کے ساتھ فصل تیار ہونے تک تقریباً 2 لاکھ تا ڈھائی لاکھ روپئے خرچ آرہا ہے ۔ حیدرآباد ہول سیل مارکٹ میں فی الوقت ادرک صرف 10 روپئے کیلو فروخت ہو رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے کسان زبردست مالی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں اور اسی طرح آلو کسانوں نے دریافت کرنے پر بتایا کہ ربیع کے سیزن میں آلو کی کاشت کی جاتی ہے یہاں پر سالانہ 30 تا 35 ہزار کیلو اراضی پر کاشت کی جاتی ہے ۔ 70 فیصد عوامی زندگی صرف شعبہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ آلو کا بھی یہاں براحال ہے ۔ ہر سال آلو کے تخم کیلئے جالندھر ، پنجاب ، ہریانہ ، سے 4 ہزار ٹن آلو لاکر تخم ریزی کر رہے ہیں ۔ ٰآلو کی فصل میں مسلسل نقصان ہونے اور اس سال آلو کی کاشت کیلئے موسم ناساز ہونے سے صرف 2 ہزار ٹن آلو کا تخم لایا جارہا ہے ۔ اکٹوبر کے ماہ کے اول آحر سے نومبر تک تخم ریزی کی جاتی ہے ۔ لیکن اس سال برسات زیادہ ہونے سے یپداوار نہیں ہوسکی ۔ اس لئے تخم ریزی نہیں کی جارہی ہے ۔ آلو کی فصل صرف 90 تا 100 دن میں تیار ہوجاتی ۔ کسانوں نے بتایا کہ ظہیرآباد ، کوہیر کے اطراف کے علاقوں سے ہر سال باہر سے آلو تخم لاتے ہوئے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ اس ضمن میں کسانوں نے حکومت کو کئی مرتبہ نمائندگی کی تھی کہ ظہیرآباد یا کوہیر میں ایک کولڈ اسٹور کی ضرورت ہے ۔ بی بی پاٹل رکن پارلیمنٹ حلقہ ظہیرآباد کو اس ضمن میں کئی مرتبہ یادداشت حوالے کی ہے لیکن عمل نہیں ہوا ہے ۔ آلو کی تخم کے لئے کولڈ اسٹور نہایت ضروری ہے ۔ کوہیر کے کسانوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے کی ادرک اور آلو ہول سیل مارکٹ میں فروخت ہونے سے کیرالا اور کرناٹک سے ادرک اور پنجاب آگرہ ، شملہ ، ہریانہ سے آلو کی سپلائی کو کچھ دنوں کیلئے روک دیں ورنہ یہاں کے کسان مالی حالات سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔