چین‘ چین اور مزید چین
حیدرآباد۔اسد الدین اویسی مذکورہ مجلس اتحادالمسلمین کے لیڈر جو پارلیمانی حلقہ حیدرآبادکی نمائندگی کرتے ہیں‘
کے ٹوئٹر ٹائم لائن پر چین کے متعلق مواود پر‘ یا پھر چین‘ ایل اے سی یا پھر گلوان وادی تنازعہ اوروزیراعظم کے اس پر ردعمل پر مشتمل ٹوئٹس کا سیلاب امنڈ پڑا ہے۔
چالیس دنوں کے لئے 10جولائی تک یہ مواد ان کی ٹائم لائن کے 40فیصد حصہ پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
مذکورہ اے ائی ایم ائی ایم کے سربراہ ان چند ایک سیاسی قائدین میں سے ہیں یا شائد واحد مسلم سیاسی قائد جو اپنے نمک کا حق ادا کرتے ہیں‘ جو کھل کر تنقیدی اور اس موضوع پر کھل کر با ت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے موقف میں یکسانیت رہتی ہے۔ انہوں نے پی ایل اے اور حقیقی خط قبضہ پر چینیوں کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیوں کی مثالوں کے موقف کے متعلق مشکل سوالات پوچھے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے ان حالات پر وائٹ پیپر جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے۔ ان کے چھبتے او رپرجوش سوالات پر ڈھال بننے کے لئے پارٹی ترجمانوں کو مجبور کردیاہے۔
قومی سطح پر ایک قومی قائد جو ہے وہ اسد الدین اویسی ہیں۔
صرف چین سے متعلق مواد
مگر حیدرآباد میں حالات ان کے اپنے حلقہ میں بلکل منفرد ہیں۔اگر ٹوئٹر صارفین یکم جون جن ان لاک 1.0میں نرمی کا اعلان کیاگیاتھا وہ کسی کو بھی 580ٹوئٹس کے اندازے کے مطابق تلاش کرنے پر 11جولائی تک ملیں گے۔
اس میں چین سے متعلق مواد پر 235ٹوئٹس ہیں‘یہ حیدرآباد میں ریاستی حکومت پرکئے گئے ٹوئٹس کے مقابلے میں کافی بھاری تعداد ہے۔
ریاست میں کویڈ کے حالات کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات کے تعلق سے
ایک مرتبہ پھر اگر کوئی حیدرآباد‘ وہ حلقہ جس کی نمائندگی وہی کرتے ہیں سے متعلق ٹوئٹس کا تقابل کرتا ہے‘ مذکورہ ٹوئٹس کی تعداد کافی کم ہے۔
تقریبا45کے اردگرد ٹوئٹس حیدرآباد کے ضمن میں ہیں‘ اس میں سے کئی ٹوئٹس ایک ہی موضوع پر ہیں‘ جس میں حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے یاتو ٹوئٹ یاپھر ری ٹوئٹ کیاہے۔
وہ کسی فرد یا پھر نئی تنظیموں کے ہیں۔ بالخصوص عالمی وباء کو حل کرنے کے اقدامات میں بڑی مشکل سے کوئی ایک ٹوئٹ میں ٹی آر ایس کی ان ساتھی پارٹی یا پھر حکومت سے جوابدہی مانگی گئی ہے۔
یکم جون کو حیدرآباد سے متعلق پہلا ٹوئٹ ہے جو عثمان گنج کے نئے پل کے لئے کیاگیاتھا۔ اس کے بعد نہرو زولوجیکل پارک کے لئے تھا۔
پھر اس کے بعد اے ائی ایم ائی ایم کی جانب سے صفائی کے آلات کی مختلف مذہبی مقامات کے لئے حوالگی پر مشتمل ٹوئٹ‘ پھر اس کے بعد اے ائی ایم ائی ایم ورکرس کی جانب سے کویڈ19کے معاملات کی جانکاری ملنے پر فرسٹ لانسر کا دورہ کا ٹوئٹ کیاگیاتھا۔
پھر دوبارہ آلات کی تقسیم پر مشتمل ٹوئٹ کیاگیاتھا۔دیگر ٹوئٹس جو حیدرآبادسے متعلق ہیں اس میں حیدرآباد سٹی پولیس کی جانب سے اپنے ہی جوان پر ایک لڑکی کے ساتھ جنسی بدسلوکی کا مقدمہ درج کرنا
اور حیدرآباد کمشنر آف پولیس انجنی کمار کے گاندھی اسپتال دورے کے ضمن میں ٹوئٹ ٹائم پر موجود ہے
آخری مرتبہ جب تلنگانہ اسٹیٹ گورنمنٹ سے ایم پی نے سوال پوچھاتھا
ان کی ٹائٹ پر25جون کے روز کئے گئے ٹوئٹ کو سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے جانچ کو روکنے پر تنقید کی گئی ہے۔
مارکٹ بند کرنے کے متعلق لاڈ بازار ٹریڈرس کے فیصلے کا مذکورہ رکن پارلیمنٹ نے خیرمقدم کیاہے۔
اگلے روز26جون کو چند ٹوئٹس کالاپتھر کیس میں مداخلت کے متعلق تھا جو کسی ٹوئٹر صارف کو انہوں نے ان کی مداخلت کی جانکاری دی تھی۔
تاہم اگلے ٹوئٹس خلوت میں پانی جمع ہونے اور ایس ڈی نگر میں مٹی کی صفائی پر مشتمل ہیں۔کچھ قابل ذکر ٹوئٹس جو ہیں وہ حیدرآباد میں عالمی وباء کے متعلق ہیں اور اکبر الدین اویسی کے مطالبے پر حیدرآباد پارلیمانی حلقہ اور نامپلی اسمبلی حلقہ میں 20,000زائد جانچ کے معاملات‘ او ریونانی اسپتال کو پہلا ریفرل اسپتال سنٹر بنائے جانے پر مشتمل ہیں۔
پھر ایک مرتبے اسدالدین اویسی تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی کے وفادار حلیف کے طور پر دفاع میں اس وقت سامنے ائے جب ’تلنگانہ میں سرکاری اسپتالوں کے اندر کویڈ19کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں“ پر مشتمل تھا‘ جس نے مریضوں کے علاج کے متعلق ایک غلط تصویر پیش کی ہے۔
ایک اور ٹی آر ایس کے دفاع میں 10جولائی ہے جس میں انہوں نے ٹوئٹ کیاکہ ”تلنگانہ چیفمنسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی جانب سے سکریٹریٹ کے احاطہ میں مساجد کے انہدام کے متعلق ’افسوس‘ کے بیان بڑ ا خلاصہ ہے اور اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
کویڈ کی جانچ
یہ ایک اہم اشارہ ہے کہ اس مخصوص واقعہ کے بعد ان کی ٹائم لائن پر مقامی نوعیت کے واقعات کی مناظر دیکھے جاتے ہیں۔ وہ جانچ کے لئے یونانی اسپتال پہنچ گئے۔
حیدرآبادی باشندوں کی جانچ کے متعلق ٹوئٹر صارفین کی جانب سے استفسار پر انہوں نے پھر فوٹوز اور ویڈیوز کی شکل میں بیانات جاری کئے تھے۔
پھر 12جولائی کو انہوں نے پارٹی ممبرس کے ساتھ ان لائن میٹنگ کاانعقادعمل میں لایاتھا کہ کرونا وائرس کنٹیمنٹ اقدامات کو قطعیت دی جاسکے۔
Got my antigen & RTPCR tests done for COVID-19 today. My antigen test results were negative, Alhamdulilah. There are 30 odd centres in the South of Hyderabad where antigen testing is being conducted, I encourage all of you to not hesitate & get tested! pic.twitter.com/lihGjG7upx
— Asaduddin Owaisi (@asadowaisi) July 11, 2020
حیدرآباد رکن پارلیمنٹ کی جانب سے دہلی میں بھارتیہ جنتاپارٹی پر عالمی وباء کویڈ19سے نمٹنے میں ناکامی پر جس قدر تنقیدیں کی گئی ہیں اس کے مقابلے میں اسدالدین اویسی نے تلنگانہ حکومت کو کویڈ19سے مقابلے میں ناکامی پر اپنے ٹوئٹر ٹائٹ لائن کے ذریعہ بہت ہی کم تنقید کا نشانہ بنایاہے۔
انہوں نے سوشیل میڈیاپر قدیم شہر حیدرآباد میں کویڈ19کے معاملات پر شاذ ونادر ہی کوئی تنقیدی تبصرہ کیاہے۔
اگر وہ ایسا کرتے تو حیدرآباد کے بشاندوں کے لئے یہ مددگار ہوتا‘ مذکورہ تلنگانہ کے لوگ اور ان کے 1.4ملین ٹوئٹر فالور کے لئے ایک بڑی خدمت ہوتی تھی
لاپرواہی کے ساتھ رجوع
اسدالدین اویسی کی خاموشی حیدرآباد اور عام طور پر تلنگانہ کی عوام کے تئیں ان کی لاپرواہی کے برابر ہے۔
سب سے پہلا ٹی آر ایس حکومت نے وبائی حالات کے اس دور میں اپنے اوپر عائد ذمہ داری بہتر انداز میں نبھانے سے قاصر ہے۔
اس پر یہ بھی الزام ہے کے متاثرہ لوگوں کے اعدادشمار کے متعلق غلط بیانی سے کام لیاگیاہے۔
یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب خانگی اسپتالوں میں کویڈ کی جانچ شروع ہوئی تو حکومت کی جانب سے کئے جانے والے دعوؤں سے کہیں زیادہ متاثرین کی تعداد سامنے ائی ہے۔
جس کے بعد خانگی اسپتالوں میں جانچ پر روک لگادی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں غلط اعداد وشمار پیش کرنے کا بھی مورد الزام ٹہرایاگیاتھا۔
ایسے حالات میں کیا لوگ ٹی آر ایس حکومت کی حمایت کرنے پر ایم ائی ایم کی ستائش کریں گے‘وہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی دیانت داری اور ایمانداری کی توقع کررہے ہیں۔
اسد الدین اویسی کو اس حقیقت کا احساس کرنے کی ضرورت ہے