کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضاء دیکھ…

   

محمد مبشر الدین خرم
سعودی عرب دنیا میں اپنی منفرد حیثیت اور منصوبوں کے ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگا ہے اور سعودی عرب نے تیل کی دریافت سے پہلے کے دور اور تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے بعد کے دورکے ساتھ اب دنیا کی تیز رفتار ترقی اور تیل کی ضرورت میں بتدریج ہونے والی کمی کو محسوس کرتے ہوئے تیل کی ہی دولت پر انحصار کرنا بند کردیا ہے اور ویژن 2030 کے ذریعہ جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق سعودی عرب دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مسابقت کے موقف میں آچکا ہے ۔ سعودی عرب کا منصوبہ 2030صرف آمدنی ‘ شہری زندگی ‘ ترقیات یا صنعتی و سیاحت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس منصوبہ کے ذریعہ سعودی عرب دنیا کے ان ممالک کے ساتھ مسابقتی دوڑ میں شامل ہوگا جو کہ تیز رفتار ترقی کے حامی ہیں اور ہر شعبہ میں ان کی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے منصوبہ کے اعلان کے 5 سال کے دوران ہونے والی پیشرفت اور اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات کے دوران دنیا بھر میں وبائی صورتحال کے سبب پیدا شدہ حالات کے ساتھ سعودی عرب کی آمدنی پر ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے اقدامات کے سلسلہ میں انٹرویو کے دوران کئی اہم انکشافات کئے اور ان کے ان انکشافات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب اب اپنے روایتی طرز زندگی سے اوپر اٹھ کرترقی کی منزلیں طئے کرنا چاہتا ہے اور صرف صنعت یا تیل پر انحصار کرنے کے بجائے ہر اس شعبہ میں ترقی حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کرچکا ہے جس شعبہ سے آمدنی میں اضافہ اور عوام کو سہولتیں حاصل ہوتی ہوں۔ سعودی شہزادہ نے انٹرویو کے دوران جو اشارے دیئے ہیں ان کے مطابق سعودی عرب میں طویل مدت تک ویاٹ 5 فیصد ہی رہنے کا قوی امکان ہے

جبکہ سعودی عرب میں آمدنی پر کوئی ٹیکس عائد نہ کئے جانے کی صراحت بھی کردی گئی ہے اور کہا کہ سعودی عرب انکم ٹیکس کے متعلق غور بھی نہیں کررہا ہے۔ سعودی عرب کی جملہ آبادی کے سلسلہ میں انٹرویو کے دوران محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب میں فی الحال ہر تین افراد میں 1 فرد غیر سعودی ہے اور آئندہ دنوں میں سعودی عرب کے منصوبہ کے مطابق 50 فیصد آبادی سعودی عرب میں غیر ملکی ہوگی اور ان کی ضرورتوں کے علاوہ سعودی معاشی استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے ویژن 2030 تیار کیا گیا ہے اور اس منصوبہ کے نیون سٹی ‘ روشن کے علاوہ دیگر منصوبوں کو قابل عمل بنایا جانے لگا ہے اور یہ ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب میں امکنہ اسکیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ROSHN کے ذریعہ امکنہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں پودے لگانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے تاکہ ماحول کو ساز گار بنایاجاسکے۔سعودی شہزادہ نے اب تک مکمل ہونے والے کاموں میں تبدیلیوں کے سلسلہ میں دریافت کرنے پرجو تفصیلات پیش کی ہیں ان کے مطابق سعودی عرب اپنے منصوبہ کو متعین کردہ رفتار کے ساتھ ہی مکمل کررہا ہے اور آئندہ چند برسوں میں نیون NEON سٹی کی ترقیاتی جھلکیاں نظر آنے لگیںگی۔ دنیا بھر میں جاری وبائی صورتحال کے دوران سعودی عرب کی معیشت پر اس کے اثرات کے سلسلہ میں کہا جا رہاہے کہ سعودی عرب بھی وباء کے سبب پیدا شدہ صورتحال کے باعث معاشی سرگرمیوں میں کمی کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ سعودی عرب میں حکمراں طبقہ کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے علاوہ نئی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کا جو موقع فراہم کیا جا رہاہے اس کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا بھر میں وبائی دور کا بھی آغاز ہوا ہے لیکن سعودی حکمراں طبقہ پر امید ہے اور وباء کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی ترقی کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں دور ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہاہے۔ سعودی حکمراں طبقہ کا ماننا ہے کہ سعودی عرب صرف تیل کی دولت پر انحصار نہیں کرے گا لیکن تیل کی دولت جو کہ سعودی عرب کی آمدنی کی بنیاد ہے اسے چھوڑے گا بھی نہیں۔ سعودی حکمراں طبقہ کی جانب سے تیار کئے گئے منصوبہ کا جائزہ لینے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں تیل کی دولت اب ذیلی آمدنی ہونے لگ جائے گی اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری میں ہونے والے اضافہ کے بعد حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے چلے جائیں گے۔ محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی عرب کے عالمی تعلقات اور نظریات پر کئے گئے تبصرہ کے بعد یہ کہا جا رہاہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ایران کے متعلق نرم رویہ اختیار کیا جائے گا

اور خطہ میں امن کے فروغ کے سلسلہ میں اقدامات کو باہمی تعاون کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ سعودی عرب ترقی کی جس راہ پر گامزن ہے اسے خطہ میں امن کی برقراری کے علاوہ پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کے ذریعہ ہی دنیا بھر کے ممالک کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کیا جاسکتا ہے اسی لئے ممکن ہے کہ آئندہ چند ماہ یا سال کے دوران عربی و عجمی ممالک کے درمیان تعلقات کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اور ان ممالک کے درمیان جاری تنازعات کو حل کرلیا جائے گا۔ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات مستحکم ہیں اور آئندہ بھی مستحکم رہیں گے جبکہ حالیہ عرصہ میں اور امریکی انتخابات کے فوری بعد بعض مسائل پر امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر سعودی شہزادہ کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ وہ خشوگجی قتل معاملہ میں آزادانہ تحقیقات کے حق میں ہیں اور امریکی صدر کے ان تبصروں کے باوجود سعودی عرب کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہاہے اور دونوں ممالک کے تعلقات پر ان تبصروں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے جو کہ سعودی حکمراں طبقہ کے مطابق ایک خوش آئند بات ہے۔سعودی حکمراں طبقہ کی مکمل توجہ سعودی عرب میں عرب تہذیبی و ثقافتی سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے دنیا بھر کے سیاحوں کو سعودی عرب کی جانب راغب کروانا ہے۔ویژن 2030 میں جو سیاحتی منصوبہ تیار کیا گیا ہے ا س کے مطابق ’’بحر احمر‘‘ سے متصل ساحلی پٹی پر سعودی عرب کی جانب سے حجازی تہذیب و ثقافت کو پیش کرتے ہوئے تبوک اور جزان کے طرز کی سیاحت کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے اور سعودی شہزادہ اس سلسلہ میں جاری پیش رفت سے مطمئن ہیں۔ سعودی عرب میں مقامی باشندوں کے کام کاج اور ان میں پائی جانے والی بیروزگاری پر اب تک کوئی تبادلہ خیال نہیں کیاجاتا تھا اور حکومت کی جانب سے حاصل مراعات کے سبب اب تک یہ سوال بھی نہیں اٹھایا جاتا تھا لیکن اب جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ استعمال میں بھی تخفیف ہونے لگی ہے اسے دیکھتے ہوئے سعودی نوجوانوں میں پائی جانے والی بیروزگاری پر بھی توجہ دیتے ہوئے انہیں مراعات کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی پر توجہ دینے کے اقدامات کئے جانے لگے ہیںاور کہاجا رہاہے کہ حکمراں طبقہ کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بھی بنایا جارہا ہے کہ وہ مقامی باشندوں کو ملازمتوں کی فراہمی کے ساتھ مجموعی ترقی کو یقینی بنائیں۔سعودی عرب کی ہمہ جہت ترقی کیلئے سعودی عرب روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے مسابقتی دوڑ میں شامل ہوگا اور ٹیکنالوجی کے علاوہ ہر شعبہ میں اپنی ترقی کو یقینی بناسکے گا کیونکہ محمد بن سلمان کے نظریات موجودہ دور میں دنیا کی ضرورت کے مطابق ہیں اور دنیا میں ان نظریات کو قبول کیا جانے لگا ہے۔ سعودی عرب نے ویژب 2030 کے ذریعہ من چاہے کھانے ‘ کپڑے ‘ طرز زندگی کو فروغ دیتے ہوئے سعودی عرب کو ترقی کی راہ پر لانے کا جو منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبہ کو مغربی دنیا نے تیزی کے ساتھ قبول کرنا شروع کردیا ہے اور بیشتر عالمی کمپنیوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری بھی کرنی شروع کردی ہے ۔مستقبل قریب میں تیل کی اہمیت کو کم کرنے کے سلسلہ میں کئے جانے والے اقدامات کو عرب ممالک میں موجود تیل سے مربوط کرتے ہوئے دیکھا جانے لگا ہے

اورکہا جار ہاہے کہ مغربی دنیاتیل کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے عرب ممالک میں موجود تیل کے ذخائر کو غیر اہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس بات میں صداقت ہویا نہ ہو لیکن سعودی عرب کی جانب سے تیل کے متبادل اور اپنی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے اقدامات نے دنیا کے کئی ممالک کو جو تیل کی دولت پر انحصار کئے ہوئے ہیں انہیں ایک نئی راہ دکھائی ہے ۔تیل اور گیاس سے حاصل ہونے والی دولت پر انحصار کے بجائے سعودی عرب نے مستقبل میںپیدا ہونے والے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس منصوبہ پر عمل آوری کے معاشرتی اعتبار سے کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن سعودی حکمراں طبقہ کی اس منصوبہ بندی کے نتیجہ میں سعودی عرب کی معیشت آئندہ کئی برسوں تک مستحکم رہے گی اس کی ضمانت تو سعودی شہریوں کو حاصل ہونے لگی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اب حکومت نہ صرف انہیں مراعات بلکہ مواقع بھی فراہم کررہی ہے ۔ سعودی نظریات میں نمایاں نظر آنے والی تبدیلیوں کے سلسلہ میں اہل علم کا کہناہے کہ یہ تو ہونا ہی ہے لیکن اس رفتار سے ہوگا اس کی توقع نہیں تھی اور اب جبکہ سعودی عرب کھجورسے تیل اور اب انفارمیشن ٹکنالوجی اور صنعتی اداروں کا سفر طئے کر رہا ہے تو معاشرتی تبدیلیاں تو نظر آئیں گی ہی اور جب سرمایہ کاری کے دور کا آغاز ہوگا توبیرونی شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوگی اسی لئے سعودی عرب نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے مطابق حکمراں طبقہ کا کہناہے کہ سعودی اپنے اقدار سے مفاہمت کئے بناء مہمان نوازی کی اپنی روایات کو برقرار رکھنے کے ساتھ ملک کی مجموعی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ایک متحرک اور جواں سال ٹیم کے ساتھ کام کررہا ہے جو کہ سعودی عرب کو دنیا کے نقشہ میں منفرد شناخت دلوانے کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل ہے۔