کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اُڑتے

,

   

الیکشن کمیشن پر کنٹرول …سپریم کورٹ رکاوٹ
ہیمنت بسوا شرما کی گجرات میں زہر افشانی

رشیدالدین
جمہوریت اور جمہوری اقدار کو خطرہ کی صورتحال سے عوام ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ مودی حکومت نے دستوری اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے ان اداروں کی آزادی اور غیر جانبداری کو یرغمال بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ حکومت سے سوال کرنے کی ہمت کسی میں نہ رہے۔ ایک جماعتی نظام حکومت کو رائج کرنے سنگھ پریوار بالخصوص آر ایس ایس نے جو منصوبہ بندی کی ہے ، اس کے نتائج اور اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔آزادی کی 75 سالہ تاریخ میں ملک نے ایمرجنسی جیسے حالات بھی دیکھے لیکن کوئی پارٹی یا حکومت دستور سے کھلواڑ کر کے اقتدار میں باقی نہ رہ سکی۔ جب کبھی بھی حکومتوں نے حدود سے تجاوز کیا عدلیہ اور دیگر دستوری اداروں نے اپنے فرائض کو نبھاتے ہوئے حکومتوں کو سبق سکھایا۔ 2014 ء کے بعد سے ملک میں مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ بھی اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت نے بی جے پی کو من مانی قانون سازی کا موقع فراہم کردیا جبکہ عاملہ میں اپنی پسند کے عہدیداروں کے تقرر کے ذریعہ نظم و نسق پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا ۔ عدلیہ اور دیگر دستوری اداروں کے ساتھ چھیڑخوانی وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ججس کے تقررات اور الیکشن کمیشن اور لا کمیشن پر کنٹرول کی تیاریاں ہیں۔ ججس کے تقررات میں حکومت کی مداخلت کا اثر عدلیہ کے اکثر فیصلوں میں دکھائی دینے لگا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے الیکشن کمیشن کا اہم رول ہوتا ہے اور مودی حکومت نے الیکشن کمیشن کو حکومت اور بی جے پی کے آلہ کار میں تبدیل کردیا ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کی محاذی تنظیم میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں الیکشن قواعد کی جگہ مودی ۔ امیت شاہ کی ہدایات پر عمل ہوگا۔ گورنرس کے عہدہ پر زعفرانی پس منظر رکھنے والوں کو فائزکرنا غیر بی جے پی حکومتوں کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ ظاہر ہے کہ جب الیکشن کمیشن اور نظم و نسق ہاتھ میں ہوں تو پھر ڈر کس بات کا۔ الغرض بی جے پی نے ملک کے دستوری ، جمہوری اور وفاقی نظام پر تسلط کی تیاری کرلی ہے۔ ان یکطرفہ حالات کے باوجود عدلیہ سے عوام کی امیدیں قائم ہیں اور عدلیہ آج بھی تاریکی میں امید کی کرن کی طرح ہے۔ الیکشن کمشنرس کے تقرر کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے دستوری بنچ کے ریمارکس نے مودی حکومت کی نیند اڑادی ہے۔ ارون گوئل کو جس انداز میں الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا، اس پر سپریم کورٹ نے اعتراض جتایا۔ الیکشن کمیشن کی تاریخ میں ٹی این سیشن جیسا چیف الیکشن کمشنر پھر نہیں آیا جس کے نام سے بڑے بڑے سیاستداں خوفزدہ تھے۔ ملک میں کئی انتخابی اصلاحات ٹی این سیشن کی دین ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ میں الیکشن کمشنر آف انڈیا ہوں نہ کہ گورنمنٹ آف انڈیا۔ یعنی وہ ہمیشہ خود کو حکومت کے ماتحت نہیں بلکہ آزادانہ دستوری ادارے اور حکومت سے بالاتر ثابت کرتے رہے جبکہ آج کے تمام الیکشن کمشنرس میں شائد ہی کوئی سیشن کی مثال قائم کرسکے۔ کمیشن کے اختیارات کم کرنے کیلئے دو اضافی الیکشن کمیشن کا تقرر کیا گیا لیکن ٹی این سیشن نے دونوں کمشنرس کو آفس میں داخل ہونے نہیں دیا۔ بی جے پی نے 2024 لوک سبھا چناؤ کے بعد بھی الیکشن کمیشن پر کنٹرول کے لئے ارون گوئل کو سرویس سے رضاکارانہ سبکدوشی دلا کر دوسرے ہی لمحہ الیکشن کمشنر مقرر کیا ۔ سپریم کورٹ کے دستوری بنچ نے تقرر کی فائل طلب کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ تقرر میں برق رفتاری سے کارر وائی کی کیا ضرورت تھی۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس عہدہ پر ایسی غیر جانبدار شخصیت ہونی چاہئے جو غلطی پر وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کی ہمت رکھتی ہو۔ دوسرے معنوں میں ٹی این سیشن جیسا عہدیدار سپریم کورٹ کو چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنرس کے تقرر میں سیاسی مداخلت کی مخالفت کی ۔ سپریم کورٹ اور مرکز ی حکومت میں جیت کس کی ہوگی یہ تو عدالت کا قطعی فیصلہ بتائے گا ، تاہم اتنا ضرور ہے کہ عدلیہ میں ایسے غیر جانبدار اور آزاد چہرے آج بھی موجود ہیں جو قانون کی حکمرانی کے ذریعہ دستوری اداروں کا تحفظ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی ایک جماعتی نظام کے منصوبہ کی مزاحمت کرنے والی صرف دو طاقتیں ہیں، ممتا بنرجی اور کے چندر شیکھر راؤ۔ ان دونوں کو مرکزی تحقیقاتی اداروں اور گورنرس کے استعمال کے ذریعہ کمزور کرنے کی سازش وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کے اقتدار کے خواب کو مغربی بنگال میں چکنا چور کرتے ہوئے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ شہریت ترمیمی قانون CAA کے ذریعہ بنگال میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دینے کے منصوبہ کی راہ میں ممتا بنرجی چٹان کی طرح کھڑی ہوچکی ہیں ۔ دوسری طرف کے سی آر نے تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائیوں اور مرکز کی معاشی ناکہ بندی کے مو جود ڈٹ کر مقابلہ کی ٹھان لی ہے ۔ ہندی بیلٹ میں یوں تو کئی اپوزیشن پارٹیاں ہیں لیکن ان کی مودی مخالفت پائیدار نہیں ہوتی۔ کسی بھی دن اچانک وہ حریف سے حلیف بن جاتے ہیں۔ نتیش کمار ، مایاوتی اور اکھلیش یادو کی سیاسی قلابازیوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ کب کس کیمپ میں دکھائی دیں کوئی گیارنٹی نہیں۔ الغرض دستور ، جمہوریت اور وفاقی نظام پر بڑھتے ہوئے خطرہ کے بادل کب اور کیسے برسیں گے اور ان اداروں کا تحفظ کیسے اور کون کرے گا یہ اہم سوال ہے ۔ جس کے جواب کا سارے ملک کو انتظار ہے۔
گجرات اسمبلی انتخابات کی مہم شدت اختیار کر رہی ہے، بی جے پی نے نفرت کی انتہا کردی۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اپنی آبائی ریاست میں آگ لگانے کیلئے کافی تھے لیکن بی جے پی نے آسام کے چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما کو مہم میں شامل کیا ۔ بسوا شرما کی زبان زہریلی اور ہر موضوع پر زہر اگلنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ دراصل بی جے پی کو آگ اگلنے والے قائدین کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کی مقبولیت میں کمی کے بعد بی جے پی نے چیف منسٹر آسام کو انتخابی مہم میں آگے کردیا ہے ۔ گجرات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی سے کارکردگی کی بنیاد پر مقابلہ کے بجائے امیت شاہ نے ہندوتوا ایجنڈہ اختیار کرلیا ہے ۔ مہم کے دوران انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی مزار یا قبر غیر قانونی ثابت ہوجائے تو اسے منہدم کردیا جائے گا۔ انہوں نے گجرات فسادات کی یاد تازہ کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ امیت شاہ نے 2024 ء تک ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اشارہ دیا ہے۔ ملک میں تاریخی مساجد پر ہندوتوا طاقتوں کی دعویداری کو مضبوط کرتے ہوئے امیت شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ 1991 ء کا عبادتگاہ قانون عدلیہ کی نظرثانی کا محتاج ہے۔ اس قانون کے ذریعہ ملک کی تمام عبادتگاہوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ کاشی اور متھرا میں تاریخی مساجد پر ہندوتوا تنظیموں کی دعویداری کے پس منظر میں امیت شاہ کا یہ بیان اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ مرکزی حکومت عبادت گاہ قانون 1991 ء میں ترمیم کرے گی۔ 2024 ء تک ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری کے تحت بی جے پی نے گجرات اور ہماچل پردیش میں یکساں سیول کوڈ کا وعدہ منشور میں شامل کردیا ۔ چیف منسٹر آسام نے سب سے پہلے راہول گاندھی کو صدام حسین کا نام دیا پھر اس کے بعد گجرات پہنچ کر مسلمانوں کو ایک سے زائد شادیوں سے روکنے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہندو ایک شادی کرے تو دوسرے طبقات کو بھی ایک شادی کرنا ہوگا۔ ہیمنت بسوا شرما کے بیانات بی جے پی کو مذہبی بنیادوں پر سیاسی فائدہ پہنچانے کی مہم کے علاوہ کچھ نہیں ہےz ۔ جہاں تک ایک سے زائد شادیوں کا معاملہ ہے ، مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب کے لوگ غیر قانونی طریقہ سے ایک سے زائد شادیاں کرچکے ہیں۔ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے لیکن اس کے لئے سخت شرائط ہیں۔ بی جے پی نے کثرت ازدواج اور حلالہ کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے احکامات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ میں دستوری بنچ قائم کیا گیا جو شرعی مسائل کی نئی توضیح پیش کرے گا۔ وقت آچکا ہے کہ مسلمان شریعت اور شرعی احکامات کے تحفظ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر جماعتوں اور تنظیموں کو سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر یہ واضح کرنا ہوگا کہ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت اسلامی میں مداخلت کا عدلیہ کو کوئی اختیار نہیں ۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے بعد اگر مسلمان آواز بلند کرتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے مسلمانوں کی ترجمانی کچھ اس طرح کی ہے ؎
یہ قینچیاں ہمیں اڑنے سے خاک روکیں گی
کہ ہم پروں سے نہیں حوصلوں سے اڑتے ہیں