’’کیا آپ کو اللہ کی تلاش ہے ؟‘‘

   

(بصیرت افروز مضامین کا مجموعہ )
مرتب : سید نصرت قادری مبصر : نذیر نادر

رب جل مجدہ نے اپنے مقدس کلام (قرآن حکیم) میں (حضور اکرمؐ کی اُمت کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا : ’’تم بہترین اُمت ہو‘‘۔ کس لئے بہترین ہو؟ اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔ ’’لوگوں کی نفع رسانی کیلئے برپا کی گئی ہو‘‘۔ اس کی بھی وضاحت فرما دی کہ’’ تم بھلی باتوں کا حکم کرتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ قرطبیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خیر امت کا اعزاز اسی صورت میں ہے جبکہ امت کے افراد اپنے فرض منصبی کو پہچانیں ، ورنہ وہ اس عظیم الشان تمغے کے مستحق نہیں۔ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ لوگو! نیک کام کرنے کا حکم دیا کرو اور برے کاموں سے منع کرو۔ ورنہ جلد ہی خدا تم پر عذاب نازل کرے گا، پھر فریاد کرو گے تو سنوائی نہیں ہوگی‘‘۔ (ترمذی) آیت کریمہ اور حدیث پاک کی روشنی میں جہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے، وہیں اس سے عدم توجہی کے نتیجے میں شرافت اور سعادت سے محرومی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
زندگی کیا ہے؟ مقصد زندگی کیا ہے؟ زندگی کا انجام کیا ہے؟ انسان کون ہے؟ اس کو کس نے بھیجا؟ اس کو احسن تقویم میں کس نے ڈھالا؟ انسان کا خالق، مالک، حاکم اور معبود کون ہے؟ اس کی رضا اور ناراضگی والے اُمور کونسے ہیں؟ ان تمام سوالات کے جواب کیا کوئی یونیورسٹی دے سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس کے صحیح اور اطمینان بخش جواب صرف کلام ربانی اور فرامین مصطفی ﷺ میں ملیں گے۔ ایمانیات کے ساتھ ان کی تعلیم، تفہیم، تعمیل اور تبلیغ ہر مسلمان کیلئے ناگزیر ہے۔ روبروئے نگاہ کتاب ’’کیا آپ کو اللہ کی تلاش ہے؟‘‘ انہیں افکار کا نچوڑ ہے۔ ان ہی جذبات سے معمور ہوکر محترم سید نصرت قادری (حال مقیم امریکہ) نے یہ کتاب مرتب کی ہے، جناب سید مسعود جاوید قادری مدیر ماہنامہ ’’تصوف‘‘ حیدرآباد مرتب کتاب کے برادر اکبر ہیں۔ شہر حیدرآباد کے نام نامی عالم مفتی احمد عبدالحسیب تنویر قاسمی (مدیر ماہنامہ ’’ندائے صالحین‘‘) حیدرآباد کے امریکی دورہ کے موقع پر ایک دیرینہ دوست کے توسط سے مفتی صاحب کی مرتب کتاب سے ملاقات ہوئی، اس درمیان مرتب سید نصرت قادری نے مذکورہ کتاب مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کی۔مفتی صاحب پڑھ کر بہت مسرور ہوئے اور حیدرآباد واپسی کے بعد مفتی صاحب نے راقم سے اس کتاب پر تبصرہ کی خواہش ظاہر کی۔ راقم کا تبصرہ یہی ہے کہ کتاب کے تمام مضامین بصیرت افروز ہیں، خصوصاً یہ حصہ ’’انسان‘‘ اشرف المخلوقات کیلئے ضروری ہے کہ وہ سب مخلوقات سے بڑھ کر اپنے خالق اور معبود سے محبت کرے۔ ٹوٹ کر اس کی عبادت کرے کیونکہ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اسے زیادہ علم دیا گیا ہے اور صاحب ارادہ بنایا گیا ہے۔ جتنا علم حق ہوگا، اپنے خالق کی معرفت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مالک کا خوف ہوگا، یہ خوف انتہائے محبت سے ہوتا ہے کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہوجائے، تخلیق انسانی میں انس کا مادہ وافر ہے۔ مومن کو تمام انسانوں میں زیادہ فضیلت سے نوازا گیا۔ اسے ایمان کی سند عطا کی گئی۔ اس کے سَر کو خالق نے اپنے سامنے خم ہونے کا اعزاز بخشا اور اسے سَر تسلیم خم کرنے کی ادائے دل نوازی بخشی، اسے اپنی مرضی کے مطابق عمل کی توفیق سے نوازا اور مسلمان کہلائے جانے کا لقب عطا فرمایا، مخلوقات عالم کی تمام عبادات کو ملاکر اسے ارکان اسلام کے ایسے حسین و دلنشین اور دلربا عبادات سے نوازا کہ جب عبد عبادت کرے تو اس کے اعضاء و جوارح اور قلب و ذہن ایک لاہوتی وجدانی کیفیت سے سرشار ہوکر حسن و احسان کی دنیا میں صرف اور صرف معبود کو اپنے سامنے پائے اور معبود ایسا محسن بن جائے کہ اپنے اسے حسین سے حسین تر بناتا چلا جائے۔ (صفحہ 35) ان اللہ اشتری من المؤمنین… الخ کی آیت کریمہ کے بعد مرتب نے اس شعر کو گویا تشکر کے طور پر پیش کیا جو کس قدر محبت الہٰی میں اضافے کا موجب ہے۔ ملاحظہ فرمائے۔
جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا
تو نے خرید کر ہمیں انمول کردیا
مرتب نے اس کتاب میں 70 سے زائد دینی عناوین پر تفصیلی مواد اکٹھا کیا ہے جن میں توحید، رسالت، آخرت، قرآن و حدیث، علم، حکمت، اخلاق، تہذیب، اعمال صالحہ، حقوق انسانی، اذکار و انابت توبہ و استغفار، تزکیہ و تربیت، محبت و عرفان، اصلاحی و انقلابی فکر، احساس معصیات، تشویق حسنات، صبر و تقویٰ، حضرت لقمان علیہ السلام کے نصائح، اسلاف کے مواعظ، نصیحت آمیز اشعار کے علاوہ عہد حاضر کے بیشتر مسلمانوں کی فکری پسماندگی، اخلاقی پستی، علمی زبوں حالی، مقصد اور منصب کی قلت شعور کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر خاص طور پر بعض عیسائی دانشوران کا قول اسلام اور ان کے دلچسپ واقعات بھی شامل ہیں۔ تقریباً ہر مضمون میں آیات قرآنیہ کا حسن تسلسل ایمان میں اضافے کا باعث ہے نیز مضمون کی مناسبت سے احادیث شریفہ انتخاب بھی لائق ستائش ہے۔ مرتب نے کتاب کیلئے (ہر ذی شعور آدمی کو سوالیہ طرز کا) چونکا دینے والا نام تجویز کیا ہے اور یہ بالکل موزوں بھی ہے، کیونکہ ہر نیکی اور خیر کا مرجع، منتہی اور آخری منزل باری عزا سمہ کی ذات بے مثال ہے۔ شریعت کی روسے حق و باطل کی تمیز انسانیت کی معراج اور بندگان کا کمال ہے، ادیان باطلہ اور فرقہ ضالہ کی پُر پیچ راہوں سے ہٹ کر جب انسان مرضی الٰہی کا تابع ہوجاتا ہے تو وہ ابدی سکون و سرور سے مملو ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے مرتب گرامی نے مستند شعراء کے دواوین کھنگال ڈالے ہیں تب ہی تو وہ اس شعر تک پہنچے۔
ہر مرحلہ غم پہ ملی تجھ سے تسلی
ہر موڑ پر گھبرا کے ترا نام لیا ہے
مرتب نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کی دل پذیر نگارشات سے چن کر یہ فکر انگیز تحریر بھی قارئین کی نذر کی ہے جس کا عنوان ’’ایک اس کے روٹھنے سے گئی ساری دنیا روٹھ‘‘ مولانا آزادؒ لکھتے ہیں ’’تم نے غفلت کو خوب آزمایا، تم نے نافرمانیوں کی صدیوں تک کڑواہٹ چکھ لی، تم نے گناہ اور معصیت کے پھل سے اچھی طرح اپنے دامن بھرلئے تم نے دیکھ لیا کہ ایک خدا کی چوکھٹ سے جب تم نے سرکشی کی تو کس طرح ساری دنیا تم سے سرکش ہوگئی۔ ایک اس کے روٹھنے سے کس طرح تمام دنیا تم سے روٹھ گئی۔ بس مان جاؤ اور باز آجاؤ! گناہوں کو آزماچکے! تقویٰ اور راست بازی کو بھی آزمالیں، سرکشیوں کو چکھ چکے ،آؤ طاعت کا بھی مزہ دیکھیں، غیروں سے رشتہ جوڑ کر تجربہ کرچکے ، آؤ اس ایک سے پھر کیوں نہ جڑ جائیں جس سے کٹ کر ذلتوں اور خواریوں، ٹھوکروں اور ماندگیوں کے سواء کچھ ہاتھ نہ آیا ۔(صفحہ 87)۔ 176 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ثروت پبلیکشنس، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ 150 روپئے ہدیہ کے ساتھ دفتر ’’ندائے صالحین‘‘، قادر باغ، حیدرآباد پر دستیاب ہے۔ رابطہ کیلئے فون نمبر ہے۔ 9866237861