کیا رام مندر کی تعمیرمسلم قبرستانوں پر ہوسکتی ہے۔ ایودھیا کے 9مقامی لوگوں کا ٹرسٹ سے استفسار

,

   

چار صفحات پر مشتمل مکتو ب میں 10ٹرسٹیوں سے استفسار کیاگیا ہے کہ ”ہندو سناتھن مذہب اور عقیدے کے شعبہ میں تجربے اور بہترین جانکاری کی بنیاد پر“ کہ آیا ”مذکورہ رام مندر کی بنیاد مسلمانوں کے قبروں پر رکھی جائے گی“۔

ایودھیا۔ نومنتخبہ سری رام جنم بھومی تیرتھ شیترا کے نام ایودھیا میں رہنے والے نو مسلم مکینو ں نے مکتوب لکھ کر اپیل کی ہے کہ بابری مسجد جہاں پر کھڑی تھی اس کے اردگرد 1480اسکوائر سینٹی میٹر کے فاصلے پر پھیلے ہوئے مسلمانوں کے قبرستان پر نئی رام مندر کی تعمیر نہ کریں۔

مذکورہ مکتوب میں اس بات پر بھی زوردیاگیا ہے کہ مندر کے لئے جو 67ایکڑ اراضی حکومت نے حاصل کرلی ہے مسلمانوں کے دعوی سے وہ ”مجموعی طور پر خارج‘ اور قانون کی جانب سے فراہم کی گئی اراضی کے عین خلاف ہے۔

مذکورہ مکتوب میں یہ بھی کہاجارہا ہے کہ جو ”4-5ایکڑ اراضی شہید مسجد کے اطراف واکناف کی“ جس کے متعلق دعوی کیاجارہا ہے کہ رضاکارانہ طور پر حوالے کی گئی ہے مرکزی کی ”توقع کے مطابق“ ہے۔

جبکہ وہاں پر قبریں نمایاں طور پر دیکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ 1949 میں جبری طور پر مورتیاں وہاں پر لاکر رکھی گئی تھیں اور 1992میں بابری مسجد کو شہید کیاگیاتھا‘ اس علاقے کے ساتھ الگ قسم کا برتاؤ کیاجاتا رہا ہے“۔

اس کے علاوہ نومبر2019 کو سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں یہ بھی کہاتھا کہ ”ایودھیامیں مناسب مقام پر“ مسلمانوں کو پانچ ایکڑ اراضی فراہم کی جائے جو جاری کردی گئی ہے‘ مگر مکتوب میں لکھا کہ پہلے جہاں پر بابری مسجد کھڑی تھی اس سے کافی دور پر اراضی فراہم کی گئی ہے

چار صفحات پر مشتمل مکتو ب میں 10ٹرسٹیوں سے استفسار کیاگیا ہے کہ ”ہندو سناتھن مذہب اور عقیدے کے شعبہ میں تجربے اور بہترین جانکاری کی بنیاد پر“ کہ آیا ”مذکورہ رام مندر کی بنیاد مسلمانوں کے قبروں پر رکھی جائے گی“۔