کیا سکیولرازم ہندوستانی روایات کیلئے خطرہ ہے ؟

   

رام پنیانی
ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947ء کو انگریز نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی پائی اور جہاں تک جدوجہد آزادی کا سوال ہے وہ شمولیاتی جدوجہد تھی جس میں بلالحاظ مذہب تمام ہندوستانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندوستانیوں نے جس دستور کو قبول کیا، اس کی بنیاد مساوات اخوت اور انصاف ہیں۔ ہمارے ملک کے دستور میں سکیولرازم کے اقدار کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور خاص طور پر اس کیلئے دستور کی دفعات 14، 19،22 اور 25 میں بہت زیادہ گنجائش فراہم کی گئی۔ یہ ایسی دفعات ہیں جو تمام ہندوستانیوں کو مذہبی آزادی عطا کرتی ہیں اور وہ نہ صرف پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا رہ سکتے ہیں بلکہ مذہب کی تبلیغ و اشاعت بھی کرسکتے ہیں۔ دستور ہند نے ہمیں ان تمام چیزوں کی اجازت دی ہے۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ تمام ہندوستانی اپنے ملک اور دستور کی ہمہ مذہبی اقدار سے خوش نہیں حالانکہ یہ مذہبی اقدار ملک کی تنوع تہذیب کا احترام کرتے ہیں، ایسے عناصر دراصل فرقہ پرست ہیں جو دستور پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرتے ہیں کہ اس سے ہندوستان کے شاندار ماضی کا اظہار نہیں ہوتا۔ ہندوستان نے ماضی میں جو شاندار کردار ادا کیا، وہ ظاہر نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی اس طرح کے فرقہ پرست عناصر یہ بھی کہتہے ہیں کہ دستور ہند میں ان اقدار کو اہمیت نہیں دی گئی جن اقدار کو منو سمرتی نے فراہم کیا۔ فرقہ پرست طاقتیں نہ صرف دستور پر تنقید کرتی ہیں بلکہ ہمارے قومی پرچم کو بھی قبول نہیں کرتی۔ تقریباً 70 برسوں تک فرقہ پرستوں نے بڑی خاموشی سے دستور ہند اور اس کے اقدار کی مخالفت کی لیکن پچھلے چند دہوں نے ان طاقتوں نے اپنا سر ابھارا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی جیسے قائدین ہیں جو ایک طرف اپنے ہندو قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف انتخابی مقصد کے حصول کی خاطر یہ بھی دعویٰ کرت ہیں کہ ہم اس لئے سکیولر نہیں ہیں کہ ہمارے دستور میں لفظ ’’سکیولرازم‘‘ کا اضافہ کیا گا یا اس لفظ کو شامل کیا گیا ہے بلکہ سکیولرازم تو ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہم تو ’’سروا بنتھا سمبھاؤ‘‘ میں یقین رکھتے ہیں۔
دوسری جانب چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ جیسے قائدین بھی ہیں جو اس نظریہ سے نفرت کرتے ہیں، حال ہی میں یوگی کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر ہندوستان کے نمایاں کردار کو تسلیم کئے جانے کی راہ میں سکیولرازم ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اس سے پہلے بھی کسی موقع پر یوگی نے یہ کہا تھا کہ لفظ سکیولر ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو لوگ سکیورالزام کی باتیں کرتے ہیں، اس کے تحفظ کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں تو ساری قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے۔ دراصل یوگی کانگریس کا حوالہ دے رہے تھے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے دستور ہند پر حلف لیا۔ اسی دستور کے اہم ترین اقدار میں سے ایک کی توہین کرنے میں انہیں ذرا سی پریشانی نہیں ہوئی۔ وہ خود گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنت (اعلیٰ مذہبی رہنما) ہیں اور ہمیشہ زعفرانی لباس زیب تن کئے ہوئے رہتے ہیں۔ بی جے پی میں چند قائدین ایسے ہیں جو زعفرانی لباس زیب تن کرتے ہیں۔
آئے! دیکھتے ہیں کہ کیسے سکیولرازم ہندوستانی روایات کیلئے ایک خطرہ ہے۔ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہمہ مذہبی ملک ہے اور اس کی مذہبی روایات، زبانوں، نسلوں، کھانے پینے کی عادات و اطوار، پہناوے کے انداز، عبادات کے طور طریقے وغیرہ سے اس کی متنوع تہذیب کا اظہار ہوتا ہے۔ ہندوستان متنوع تہذیب سے مالامال ملک ہے۔ مثال کے طور پر ہندو مذہب ہی لیجئے، وہ بھی سکیولرازم اور متنوع تہذیب کا پیام دیتا ہے۔ برہمنی روایات سے لے کر بھکتی روایات کے درجات تک آپ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مساوات کی بات کرتا ہے اور بہت ساری خوبیاں ہیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ متنوع تہذیب یا تنوع عالمی اسٹیج پر ہندوستان کے کردار کو تسلیم کئے جانے کی راہ میں رکاوٹ بنی؟

ہندوستان نے عالمی سطح پر جو نمایاں حصہ ادا کیا، اسے دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا، دنیا کے ایک بڑے حصہ میں بدھا جیسے فلسفی نے جو کردار ادا کیا، اسے نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس کی ستائش کی گئی، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں بدھا کی تعلیمات کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ ہمارے ملک کی تحریک آزادی کے دوران مہاتما گاندھی ایک بلند قامت شخصیت کے طور پر ابھرے اور ہندوستانی روایات کی بنیاد پر انہوں نے عدم تشدد اور ستیہ گرہ کا پیام پھیلایا۔ مہاتما گاندھی کے انداز، ان کی تعلیمات اور پیامات سے مارٹن لوتھر کنگ (جونیر) اور نیلسن منڈیلا جیسے عالمی قائدین نے ایک نیا عزم و حوصلہ پایا اور اپنی تحریکات کو ثمرآور بنانے مہاتما گاندھی کے نقش قدم پر چلنے کو ترجیح دی۔ عدم تشدد اور ستیہ گرہ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس طرح ہم یہ بات بلامبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی فلسفہ کئی طرح سے عالمی سوچ و فکر پر اپنے اثرات مرتب کرنے میں کامیاب رہا۔
ویسے بھی عالمی تہذیب بھی مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے اور یہ تہذیبیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان نے فلکیاتی اور علم حساب (ریاضی) کے شعبوں میں جو گراں قدر کردار ادا کیا ہے، اس کے نتیجہ میں عالمی تعلیمی نظام میں ہندوستان کو خصوصی موقف حاصل ہے۔ مزید برآں یہ کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ’’غیرجانبداری‘‘ کا منفرد تصور دیا اور اس نظریہ کو دنیا کے کئی ممالک نے اپنایا اور بے شمار ملک اس منفرد تحریک میں شامل ہوئے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی بکواس کے برعکس سکیولر راہ اختیار کرنے کے نتیجہ میں ہم آزادی کے پانچ چھ دہوں میں صنعتیانے، تعلیم، آبپاشی، جوہری و خلائی تحقیق جیسے شعبوں میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرسکے اور پچھلے ایک دہے کے دوران سکیولرازم کی راہ سے ہم بھٹک گئے تب سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے اور ہم ایک مقام پر ہی اَٹک کر رہ گئے اور فرقہ پرست پارٹی یہی چاہتی ہے کہ کوئی بھی لفظ ’’سکیولرازم‘‘ کا استعمال کرنے کی جرأت نہ کرے۔یہ کہہ کر بھی تنقید کی جاتی ہے کہ 1976ء میں ایمرجنسی کے دوران لفظ سکیولرازم کو متعارف کروانا غیرضروری تھا، تنقید کرنے والے ایسی تنقید کرتے ہیں جیسے ہمارا دستور سکیولرازم کے اقدار کے باعث اپنی راہ سے ہٹ گیا ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ ایک سطح پر سکیولرازم یہ اعلان کرتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور سکیولرازم کا جو ہندوستانی ماڈل ہے، وہ تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔

سکیولرازم ایک اور طرح سے بھی منفرد ہے کہ یہ ان کمیونٹیز کو احترام بخشتا ہے جو اقلیتی ہو، سکیولرازم اقلیتوں کو اثباتی، تحفظ فراہم کرنے والی گنجائش فراہم کرتا ہے لیکن ان کو اب اقلیتوں کی خوشامدی قرار دیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسے اکثریتی طبقہ کو انتخابی طور پر متحرک کرنے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک طرف آدتیہ ناتھ سکیولر، مشترکہ اقدار کے خلاف مسلسل بیان بازی کررہے ہیں اور ہندو راشٹر کی باتیں کررہے ہیں جو کہ حکمراں جماعت کا اصل نظریہ ہے۔ ایسا کرنے والے وہ اکیلے ہی نہیں ہیں بلکہ بی جے پی میں بہت سارے لوگ ہیں جو ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں۔ ایک مرکز وزیر اننت کمار ہیگڈے نے صاف طور پر کہا کہ بی جے پی اس لئے اقتدار میں ہے کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ دستور بدل دیا جائے۔
اس سے پہلے آر ایس ایس سرسنگھ چالک کے سدرشن نے بھی کہا تھا کہ دستور ہند، مغربی اقدار پر مبنی ہے اور ملک کیلئے موزوں نہیں ہے۔ ہمیں ایسا دستور لانا چاہئے جو ہندوستان کی مقدس کتابوں پر مبنی ہو۔
مذہبی قوم پرست، سکیولر اقدار کی مخالفت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان ہمارے سامنے ہیں جہاں فرقہ پرست طاقتوں کو برتری حاصل ہے۔ وہ نہ ہی اسلامی ملک کی حیثیت سے متحد رہ سکتا، نہ ہی سائنس و تعلیم، صحت اور صنعتی شعبوں میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ ہر چیز کو فرقہ پرستی کی نظر سے دیکھنے والوں کو چاہئے کہ تعلیم، صحت، روزگار اور تغذیہ کے شعبوں میں ترقی پر توجہ مرکوز کریں، بجائے اس کے کہ ریاست کے پیسے پر مذہبی تقاریب منائیں، مندر۔ مسجد مسئلہ کو اُچھالیں، انہیں سماج کے کمزور طبقات کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔