کیا ہم آزادی اور ترقی کو منتخب کرسکتے ہیں؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ایک قومی حکومت کو منتخب کرنے کا انتخاب مثالی طور پر ایک مشترکہ قومی مقصد یا مقاصد کے پیچھے عوام کو جمع کرنے کے لیے ہونا چاہئے۔ لوگ اپنے ووٹ پاٹی A اور پارٹی B کے درمیان اور کبھی کبھار دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں لیکن مقصد مشترکہ ہونا چاہئے۔ ووٹوں کی اس طرح کی تقسیم ایک فطری بات ہے اور جمہوریت کی صحت کے لیے بہتر ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایسی تقسیم کسی قسم کا مستقل زخم نہیں چھوڑے گی۔
جہاں تک ہمارے ملک میں انتخابات کا سوال ہے، ابتدائی چند انتخابات بالکلیہ طور پر یکطرفہ تھے اور ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس ہی منظم جماعت تھی اور اس کی قیادت پنڈت جواہر لال نہرو جیسے قائدین کررہے تھے۔ ایسے قائدین کی موجودگی اس کی کامیابی کے لیے کافی تھی۔ ہاں ایک اور بات ضروری ہے کہ اس دور میں اگرچہ کانگریس کا دبدبہ تھا لیکن کانگریس کے خلاف مزاحمت کرنے والی چند اور جماعتیں اور شخصیتیں بھی تھیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ میں دو حریفوں اور ٹکر کی طاقتوں کے درمیان حقیقت میں الیکشن 1977 ء میں ہوا۔ ایمرجنسی کے پیش نظر جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحدہ ہوئیں ایک چھتری تلے جمع ہوئی اور اپوزیشن کے اس اتحاد کے نتیجہ میں جنتا پارٹی کو فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان انتخابات نے ہندوستانیوں کو بانٹ دیا۔ شمالی ریاستوں نے ایک الگ انداز میں ووٹ دیا اور جنوبی ریاستوں نے ان کے برعکس اپنے ووٹ استعمال کئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں شمال اور جنوب کے درمیان تقسیم 1977 سے ہی موجود ہے۔ واضح رہے کہ شمالی ہند کے برعکس جنوبی ہند کے عوام اقدامات کرتے ہیں۔ 1977ء کے بعد منعقد کئے گئے انتخابات میں بھی شمالی ہند کی ریاستوں میں ایک انداز میں ہی ووٹ ڈالے گئے جبکہ جنوبی ریاستوں میں جو رائے دہی ہوئی وہ شمال سے متضاد رہی۔ ہندی بولنے اور ہندی جاننے والی شمالی ہند کی ریاستوں میں زیادہ تر مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان رہا ہے اور بی جے پی نے آہستہ آہستہ لیکن بڑی مضبوطی کے ساتھ کانگریس کو ان (شمالی ہند کی) ریاستوں میں پیچھے چھوڑ دیا۔ ان ریاستوں میں کانگریس کو جو کبھی اقتدار میں رہا کرتی تھی بی جے پی نے پچھاڑ دیا لیکن جنوبی ہند کی ریاستوں میں صورتحال مختلف رہی۔ 1977ء کے بعد منعقد ہوئے انتخابات میں علاقائی جماعتوں نے کانگریس کو چیلنج کیا۔ مثال کے طور پر جنوبی ہند کی اہم ترین ریاست تاملناڈو میں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے نے، آندھراپردیش میں تلگودیشم اور وائی ایس آر سی پی نے، تلنگانہ میں ٹی آر ایس، کرناٹک میں جے ڈی ایس اور کیرالہ میں ایل ڈی ایف نے کانگریس کو چیلنج کیا اور بی جے پی پرہجوم میدان جنگ میں گھسنے میں ناکام رہی۔ اس نے کرناٹک میں کوشش تو کی لیکن اس کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے۔
بہرحال علاقائی جماعتوں کی کامیابی نے شمال اور جنوب کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو مزید بڑھادیا۔ جنوبی ہند کی علاقائی سیاسی جماعتیں بی جے پی پر گہرے شک و شبہ کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ اس معاملہ میں کانگریس سے زیادہ بی جے پی پر گہرا شک کرتی ہیں۔ یہ علاقائی جماعتیں ہیں جو بی جے پی کو ہندی، ہندو، ہندوتوا کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جنوبی ہند کی علاقائی جماعتوں کا بی جے پی کے بارے میں جو تاثر ہے وہ غلط نہیں ہے۔ بی جے پی ہندی کی وکالت ہندی کی تائید و حمایت کرتی ہے جبکہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں سرگرم سیاسی جماعتیں علاقائی زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ (ان کا الزام ہے کہ بی جے پی ہندی کو جنوبی ہند کی ریاستوں پر تھوپنا چاہتی ہے) جنوبی ہند والوں کو اپنی علاقائی زبان پر فخر ہوتا ہے، ان ریاستوں کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ وہ تمام مذاہب کے ماننے والے گروہوں کو قبول کرتے ہیں۔ ملک کے اس حصہ میں بے شمار سماجی مصلح اٹھے اور سماجی اصلاحات متعارف کروائے۔ ایسے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنوبی ہند کی عوام کو سماجی اصلاحات کی وراثت ملی ہے اور یہ ایسی راہ ہے جو جنوبی ہند کے عوام کی ممتاز راہ کہی جاسکتی ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستیں بی جے پی سے متعلق اس لیے بھی شاکی ہے کہ بی جے پی کی زیر قیات مرکزسی حکومت قومی آمدنی کی تقسیم میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھی ہے۔ جانبداری اور تعصب سے کام لیتی ہے۔ جبکہ بی جے پی علاقائی زبانوں پر ہندی کو برتری دلانے کی خواہاں رہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی مرکزی حکومت یا پھر اس کے زیر اقتدار ریاستی حکومتیں غذا، لباس تہذیب و ثقافت وغیرہ ایک ہی قسم کا نافذ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس کے دامن میں بے شمار مذاہب کے ماننے والے، متعدد تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والے اور کئی ایک زبانوں و بولیوں کے بولنے والے رہتے بستے ہیں۔ ان کے کھانے پینے لباس زیب تن کرنے یہاں تک مذہبی رسوم و رواج بھی بالکل الگ الگ ہیں۔ مزید یہ کہ بی جے پی نے مرکز۔ ریاست تعلقات میں ’’مرکزیت‘‘ کا زہر گھول دیا ہے اور اس کے لیے اس نے ایسے بے شمار قوانین کی تدوین کی اور انہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور کروایا۔ جو ریاستوں کے اختیارات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان قوانین کے نتیجہ میں ریاستوں کی خود مختاری اور ان کے اختیارات گھٹ کر رہ گئے۔ بی جے پی نے ایسی پالیسی پر بھی عمل کیا اور ایسے قوانین بھی بنائے جس کا اس نے علاقائی جماعتوں کو کمزور یا تباہ کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شمال اور جنوب کے درمیان دوریاں بڑھتی گئیں اور افسوس یہ فاصلہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔
بی جے پی کے ایجنڈہ کا انکشاف:
بی جے پی، کانگریس کے تعلق سے کیا چاہتی ہے وہ اب کوئی راز یا معمہ نہیں رہا۔ بی جے پی کانگریس مکت بھارت (کانگریس سے پاک بھارت) چاہتی ہے۔ غیر کانگریسی سیاسی جماعتوں کے تعلق سے بھی بی جے پی کا رویہ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ایک منصوبہ کے تحت کسی طاقتور و بااثر علاقائی سیاسی جماعت سے کچھ عرصہ کے لیے اتحاد کرتی ہے لیکن اس کا قطعی مقصد اس پارٹی کو یکاو تنہا اور کمزور کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے سامنے جنتا پارٹی، اکالی دل، انڈین نیشنل لوک دل، بی ایس پی اور جے ڈی (ایس) کی مثالیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی نے شمال مشرقی ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں کوا س قدر مجبور اور بے بس کردیا ہے کہ ان کی شناخت بھی مشکل میں پڑ گئی ہے۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب بی جے پی ٹی ایم سی، وائی ایس آر سی پی اور ٹی آر ایس کی دوست ہوا کرتی تھی ان سے بہت زیادہ قربت اختیار کرگئی تھی لیکن اس دوستی کا مقصد صرف اور صرف انہیں مغربی بنگال، آندھراپردیش اور تلنگانہ میں کمزور کرکے اقتدار سے بے دخل کرنا تھا۔ بی جے پی کا مقصد مہاراشٹرا، اوڈیشہ، آندھراپردیش اور ہریانہ میں بھی ایسا ہی رہا۔ اچھا ہوا کہ تاملناڈو جیسی ریاست میں ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے جلد بیدار ہوگئیں لیکن شیوسینا، این سی پی اور بی جے پی کو بیدار ہونے میں تاخیر ہوگئی اور ان جماعتوں کا حشر سب نے دیکھا۔ بہرحال دیرآئد درست آئد کے مصداق ان جماعتوں نے بی جے پی سنے دوری اختیار کرکے خود کی بقاء کو یقینی بنالیا ہے۔ آر ایل ڈی، بی جے ڈی اور ٹی ڈی پی کو جلد ہی احساس ہوجائے گا کہ بی جے پی میں ان کے لیے کیا رکھا ہوا ہے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی عوام سے التجا کررہی ہے کہ وہ اسے 370 پارلیمانی حلقوں پر کامیاب کروائے تاکہ وہ اپنے ظاہری اور خفیہ ایجنڈہ کو آگے بڑھا سکے۔ بی جے پی نے ہندوتوا کی مہم جس شدت سے چلائی ہے وہ ایودھیا اور کاشی سے نہیں رکے گی۔ ہندو منادر کے قریب مزید جو مساجد ہیں ان پر تنازعہ پیدا کیا جائے گا، ملک کے مزید شہروں اور سڑکوں کے مسلم نام تبدیل کئے جائیں گے۔ شہریت ترمیمی قانون 2019ء پر عمل آوری شروع ہوچکی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس قانون پر عمل آوری کے لیے 11 مارچ 2024ء کو اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا اتراکھنڈ میں تجربہ کیا گیا۔ اس کی نقل کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ایک قانون منظور کیا جائے گا۔ اب تو ایک ملک ایک انتخابات کے آئیڈیا کو دستور میں ترمیم کے ذریعہ ایک قانون میں تبدیل کیا جائے گا۔ وفاقیت اور پارلیمانی جمہوریت کو آنے والے دنوں میں مزید پامال کیا جائے گا اور حکومت ہند صدارتی نظام حکومت کے قریب ہوجائے گی جس میں تمام اختیارات ایک شخص کے ہاتھ میں ہوں گے۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ کئی لوگ مرکزیت کی تائید و حمایت کررہے ہیں کیوں کہ حقیقی جمہوری اقدار ہمارے خاندان، سماج یا سیاسی ساخت میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوئے ہیں اور ترقی کے نام پر ہم اس بات کو قبول کریں گے کہ دولت مند مزید دولت مند ہوتا جارہا ہے اور نچلی سطح کے 50 فیصد عوام دولت میں تین فیصد اور قومی آمدنی میں 15 فیصد حصہ پاکر مطمئن ہیں۔