کیا ہم جی ایس ٹی کا مرثیہ تحریر کریں ؟

   

اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کوئی عیب دینے پر غیرملکی چیز نہیں کہ اسے وفاق میں ملک گیر سطح پر ریاستوں میں من و عن نافذ کیا جائے۔ اس کے مختلف نمونے ہیں لیکن بنیادی اصول وہی ہے کہ کسی ایک مرحلہ پر ادا کردہ ٹیکس کی وجہ سے اگلے مرحلے پر ادا شدنی ٹیکس کی وجہ سے سربراہی کا سلسلہ بند نہیں کیا جاسکتا۔ ٹیکس پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہئے۔
موڈویٹ اور بعدازاں سین ویاٹ (مرکز کا ٹیکس) اس لئے متعارف کروائے گئے تھے کہ ایکسائز ڈیوٹی اور خدمات ٹیکس کا اثر کم کیا جائے۔ یہ اچھی طرح کارآمد ثابت ہوا۔ ریاستوں کو قابل لحاظ کوشش کے ذریعہ ترغیب دی گئی کہ سیلس ٹیکس کے بجائے ویاٹ (اضافی قدر والا ٹیکس) اختیار کریں اور اپنے دائرۂ کار میں آزادانہ کارروائی نہ کریں تاہم کئی ناقابل حل طلب مسائل تھے جو بین ریاستی فروخت اور بین ریاستی خدمات میں موجود تھے۔ سربراہی کے تسلسل میں بھی مسائل تھے، ایک مرحلہ پر خدمات فراہم کی جاتی تھیں اور دوسرے مرحلے پر اشیاء جی ایس ٹی اس مسئلہ کا حل تھا جو تمام خدمات اور تمام فروخت پر عائد تھا۔

مسلمہ ٹیکس
مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو مساوی قرار دیتے ہوئے جو ایک مشکل مہم تھی، جن اُمور کا احترام کیا جانا ہے، ان میں ٹیکسیس عائد کرنے کی طاقت نمایاں تھی۔
٭ کہ دستور ہند وفاقی نوعیت کا ہے اور ٹیکس عائد کرنے کی طاقت بھی ایسی ہی ہے۔
٭ جو مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں منقسم ہے۔
٭ کہ ریاستوں کو ٹیکس عائد کرنے کی طاقت سے دستبردار ہونا تھا۔
٭ اشیاء کی فروخت مالیہ کا بنیادی ذریعہ ہے۔
٭ بڑی اور چھوٹی ریاستوں میں غیرمناسب فرق نمایاں تھا۔
٭ کہ ریاستوں کو اندیشہ تھا کہ انہیں مالیہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔
٭ معاوضے کے تیقنات اور اس کے بعد قابل نفاذ نظام کے قیام کے ذریعہ
٭ کہ مشترکہ خود مختاری کا حصول باہمی اعتماد اور احترام کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
٭ کہ رائے دہی کے لئے قاعدہ ضروری ہے۔ اتفاق رائے کے ذریعہ اس کا امکان ہے، پارٹی خطوط کی بنیاد پر نہیں۔
٭ یشونت سنہا، آنجہانی پرنب مکرجی نے ہر ممکن کوشش کی کہ مذکورہ بالا اُصولوں پر عمل کیا جائے۔ آنجہانی ارون جیٹلی نے بھی ایسا ہی کیا۔ حالانکہ وہ ابتدائی شرح ٹیکس سے متفق نہیں ہوئے جبکہ وزرائے فینانس کے گروپ کے اجلاس نے بھی تیار کیا جو جی ایس ٹی کونسل سے متعلق تھا۔ جب تک ارون جیٹلی نے کرسیٔ صدارت سنبھالی، یہ بلارکاوٹ اور صف آرائی کے رویہ سے گریزاں تھا۔ اس نے جی ایس ٹی کے عمل میں پیشرفت کی تاہم تعطل کو بڑھاوا نہیں دیا۔
٭ جب سے نرملا سیتا رامن داخل ہوئیں بعد کے ہر اجلاس میں زیادہ سے زیادہ تنازعات صف آرائیاں ہوئیں۔ باہمی اعتماد و احترام کا تقریباً مکمل فقدان پیدا ہوا۔
٭ دستوری دفعات واضح ہیں۔ دفعہ 246A پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ دونوں کو بااختیار بناتی ہے۔ صرف بین ریاستی صنعت و تجارت میں جی ایس ٹی کا اختیار ریاستوں کو ہے جو بین ریاستی معاملتوں پر جی ایس ٹی عائد کرتی ہیں۔ دفعہ 269A واضح کرتا ہے کہ حکومت ہند جی ایس ٹی عائد کرے گی اور اشیاء و خدمات ٹیکس کونسل کی سفارش کے بموجب مرکز اور ریاستی حکومتوں میں حصے دیئے جائیں گے۔ دفعہ 279A جی ایس ٹی کونسل کی تشکیل کے ذریعہ دائرہ مکمل مکرتی ہے کہ مرکز کا فائینانس منسٹر کا صدرنشین کی حیثیت سے تقرر کیا گیا، نائب صدرنشین کے انتخاب کے لئے سفارش کرنے کا اختیار کونسل کو دیا گیا اور جی ایس ٹی سے مربوط تمام ٹیکسیس، سرچارجیس عائد کرنے سے متعلق تمام اُمور کا اختیار دیا گیا۔ تنازعات کی یکسوئی کا نظام قائم کیا گیا۔ ووٹوں کی اہمیت مقرر کرنے کا نظام قائم کیا گیا جس کے تحت سمجھا جاتا ہے کہ مرکز کو ریاستوں پر برتری نہیں دی گئی۔
٭ جی ایس ٹی کونسل کے تحت ہر نظام معطل کردیا گیا کیونکہ اس کے 2016ء میں قیام سے اب تک نائب صدرنشین کا انتخاب نہیں ہوا۔ اکتوبر 2020ء اور اپریل 2021ء کے درمیان جی ایس ٹی کونسل کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ عملی (موثر اعتبار سے) اسے جی ایس ٹی کے نفاذ کی کمیٹی کے عہدیداروں نے نظرانداز کردیا۔ یہی عہدیدار سفارشات پیش کرتے ہیں جو قواعد بن جاتے ہیں جبکہ جی ایس ٹی کونسل اور ریاستوں کی مقننہ انہیں منظور کردیتی ہے اور مرکزی حکومت اُنہیں قواعد بنادیتی ہے۔

جی ایس ٹی کو اختیارات دینا
٭ جی ایس ٹی کونسل کے 43 ویں اجلاس میں مسٹر من پریت بادل وزیر فینانس پنجاب نے یہ تمام مسائل اُٹھائے اور عاجلانہ معاملات پر زور دیا۔ جی ایس ٹی کی شرحوں میں کمی اور کووڈ کا علاج اور فاضل وفود برائے جی ایس ٹی نفاذ کمیٹی۔ اجلاس کے بعد مرکز کی فینانس منسٹری نے 8 وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ کووڈ سے متعلق جی ایس ٹی کی شرحوں پر نظرثانی کی جائے اور واضح کیا کہ تین کانگریس زیراقتدار ریاستوں اور دیگر ریاستوں میں پرزور انداز میں شرحوں میں کمی کے دلائل دیئے ہیں۔
٭ 4 جون 2021ء کے ایک مکتوب کے بموجب جو ڈاکٹر امیت مترا (وزیر فینانس مغربی بنگال) نے مسز سیتا رامن کو لکھا تھا جی ایس ٹی کے معاوضہ کے ریاستوں کو بقایاجات جنوری 2021ء تک 63 ہزار کروڑ روپئے ہوچکے ہیں۔ پنجاب ، راجستھان اور چھتیس گڑھ نے دعویٰ کیا کہ ان کے بقایاجات یکم جون تک علی الترتیب 7,393 کروڑ روپئے ، 4,635 کروڑ روپئے اور 3,069 کروڑ ہوجائیں گے۔ اس کے باوجود 15 جون کے ٹی وی انٹرویو میں مسز سیتا رامن نے برہمی سے تردید کی اور کہا کہ ’’کونسے بقایاجات میں تمام ریاستوں کے جی ایس ٹی بقایاجات ادا کرچکی ہوں۔
مسٹر مودی کی حکومت نے جی ایس ٹی کو ریاستوں کو نظرانداز کرنے کے اختیارات دیئے ہیں۔ جی ایس ٹی کونسل نے کمی کردی گئی ہے اور اسے صرف باتیں کرنے کی دکان بنا دیا گیا ہے۔ موثر قانون سازی کے ذریعہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ جی ایس ٹی نفاذ کمیٹی اور مرکزی حکومت ان غیرمعمولی اختیارات کا استعمال کرسکتی ہیں۔ جی ایس ٹی کے بقایاجات اور معاوضے یا تو روک دیئے گئے ہیں اور ان میں ریاستوں کیلئے ادائیگی میں تاخیر کی جارہی ہے۔ ریاستیں ، مرکزی حکومت سے فنڈس کی درخواستیں کررہی ہیں۔