کے سی آر کے یکطرفہ فیصلہ پر بائیں بازو جماعتوں کے قائدین کی برہمی

   

دوستی کے اصولوں کی خلاف ورزی، ہم اپنی طاقت بتائیں گے، سی پی آئی اور سی پی ایم قائدین کا اجلاس
حیدرآباد۔/22 اگسٹ، ( سیاست نیوز) بائیں بازو کی جماعتوں نے بی آر ایس کی جانب سے انتخابی مفاہمت کو نظرانداز کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر امیدواروں کی فہرست جاری کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ سی پی آئی اور سی پی ایم کے قائدین نے کے سی آر سے سوال کیا کہ وہ جواب دیں کہ آیا دوستی کا حق انہوں نے ادا کیا ہے؟ سی پی آئی اور سی پی ایم قائدین کا آج ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں انتخابی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔ ریاستی سکریٹری سی پی آئی سامبا سیوا راؤ اور ریاستی سکریٹری سی پی ایم ٹی ویرا بھدرم نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی آر ایس کے ساتھ انتخابی مفاہمت کے ٹوٹ جانے پر وہ شخصی تنقید سے گریز کریں گے جبکہ اصولوںکی بنیاد پر بی آر ایس کی مخالفت کی جائے گی۔ مخدوم بھون میں منعقدہ اس اجلاس میں سی پی ایم کے قائدین ٹی ویرا بھدرم، جے رنگاریڈی، جان ویسلی، سی ایچ سیتا راملو، سدرشن، سی پی آئی قائدین کے سامبا سیوا راؤ، چاڈا وینکٹ ریڈی، پی وینکٹ ریڈی، ٹی سرینواس راؤ، پی پدما، ای ٹی نرسمہا اور دوسروں نے شرکت کی۔ سامبا سیوا راؤ اور ویرا بھدرم نے کہا کہ چیف منسٹر کے سی آر کے فیصلہ سے بائیں بازو جماعتوں کو کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ نقصان کے سی آر کا ہوگا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی اور بی آر ایس کے درمیان مفاہمت ہوچکی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آیا کے سی آر نے دوستی کے اصولوں کو نبھایا ہے اس بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے۔ کمیونسٹ قائدین نے کہا کہ سیاست کا مطلب دھوکہ ہے اسے کے سی آر نے ثابت کردیا ہے۔ بائیں بازو کی تائید نہ ہوتی تو منگوڑ میں بی آر ایس کو کامیابی نہ ملتی۔ منگوڑ ضمنی چناؤ میں کے سی آر نے ہماری تائید مانگی تھی۔ منگوڑ ضمنی چناؤ کے بعد بھی بائیں بازو کو حلیف جماعتوں کی طرح برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ کے سی آر نے امیدواروں کے اعلان کے سلسلہ میں یکطرفہ فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بائیں بازو جماعتوں کو کے سی آر سے اسی طرح کے فیصلہ کی امید تھی۔ بائیں بازو قائدین نے کہا کہ تلنگانہ میں سی پی آئی اور سی پی ایم فیصلہ کن رول ادا کریں گے اور کمیونسٹ جماعتوں کی طاقت کیا ہے اسے ثابت کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ بائیں بازو جماعتوں کے قائدین نے کانگریس سے انتخابی مفاہمت کے امکانات کو کھلا رکھا ہے تاہم اس سلسلہ میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔