گاندھی جینتی پر گوڈسے کے حق میں نعرے آر ایس ایس اور بی جے پی پکارے

   

رام پنیانی
سارے ملک میں ہر سال کی طرح اس سال بھی 2 اکتوبر کو مہاتما گاندھی کی یوم پیدائش منایا گیا۔ ہندوستان کی آزادی میں مہاتما گاندھی کا اہم کردار ہے اور ملک میں انہیں بابائے قوم کہا جاتا ہے، لیکن ہندوستان میں فرقہ پرستی اس حد تک جڑ پکڑ چکی ہے، جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گاندھی جینتی کے موقع پر ٹوئٹر پر کثیر تعداد میں ’’ناتھو رام گوڈسے امر رہے‘‘ جیسے نعروں پر مبنی ٹوئٹس دیکھے گئے۔ یہ ٹوئٹس مسلسل کئے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ ناتھو رام گوڈسے زندہ باد نعروں پر مبنی ٹوئٹس بھی ٹوئٹر اور سکیولر ہندوستان کا منہ چڑا رہے تھے۔ گاندھی جینتی کے موقع پر گوڈسے زندہ باد اور گوڈسے امر رہے، سب سے ٹاپ ٹوئٹر رجحان رہا جس نے کئی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ان لوگوں کو بھی جو مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کیلئے اپنے دلوں میں ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ حیرت ہوئی مہاتما گاندھی کے قاتل کی تائید و حمایت میں کئے جانے والے ٹوئٹ سے متعلق ٹرینڈ تصور سے کہیں زیادہ رہا۔ ایک جنگل کی آگ کی طرح یہ ٹوئٹ پھیل رہا تھا۔ نسلی منافرت کے حامی قوم پرستوں نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت گوڈسے کی تعریف و ستائش کا سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر اس طرح کی چالیں اختیار کیں۔ آر ایس ایس جو بی جے پی کی سرپرست تنظیم ہے اور جس کے ہاتھوں میں ہندو قوم پرستی پر مبنی سیاست کی ڈور ہے، وہ ایک وقت میں کئی زبانیں بول سکتی ہیں اور یہ سب کچھ 2014ء کے عام انتخابات میں مودی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے بعد شروع ہوا۔ اب حال یہ ہے کہ ہندو قوم پرست عناصر کو گوڈسے کے شیطانی عمل یعنی مہاتما گاندھی کے قتل کا جشن منانے کیلئے کوئی بہانہ ڈھونڈنا نہیں پڑا ہے۔ انہیں گاندھی کے خلاف اور گوڈسے کی تائید میں جشن منانے سے روکنے والا کوئی نہیں۔ ہندو قوم پرست تنظیم ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے ہمیشہ جو سیاست اپنائی ہے، جس نظریہ کا پرچار کیا ہے، اسی کا یہ نتیجہ ہے۔

مہا تما گاندھی کے قتل کے فوری بعد اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ اور گاندھی جی کے کٹر حامی سردار ولبھ بھائی پٹیل نے ایک مکتوب لکھا جس میں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے بارے میں تلخ باتیں کہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ان دونوں تنظیموں کی سرگرمیوں خاص طور پر آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس سے گاندھی جی کے قتل کا المناک واقعہ ممکن ہوا۔ سردار پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ تھے۔ 18 جولائی 1948ء کو انہوں نے شیام پرساد مکرجی کو موسومہ مکتوب میں مذکورہ خیالات ظاہر کئے تھے۔ (سردار پٹیل کے مکتوبات جلد 6) گاندھی جی کا جب قتل ہوا تو اس وقت آر ایس ایس نے فوری یہ دعویٰ کردیا کہ ناتھو رام گوڈسے پہلے ہی آر ایس ایس کو خیرباد کہہ چکا ہے جبکہ ناتھو رام کے بھائی گوپال گوڈسے نے اپنی کتاب میں لکھا کہ تینوں بھائی آر ایس ایس میں رہ کر ہی بڑے ہوئے اور ناتھو رام گوڈسے نے کبھی بھی آر ایس ایس سے ترک تعلق نہیں کیا۔ سردار پٹیل نے ہندو مہا سبھا کی انتہا پسند ونگ پر الزام عائد کیا اور بعد میں جیون لال کپور کمیشن نے مہاتما گاندھی کے قتل میں گوڈسے کے ملوث رہنے کے ساتھ ساتھ ونائیک ساورکر کے بھی شریک جرم ہونے کی تصدیق کی۔ سردار پٹیل نے یہ بھی لکھا کہ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس نے مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے ان کے قتل کا جشن منایا۔ سردار پٹیل کے مطابق آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی کے قتل کو ’’گاندھی ودھ‘‘ قرار دیا۔ ودھ ایک مراٹھی لفظ ہے جو کسی راکشس کے قتل کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ گولوالکر نے 13 دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ ایک وقت پر دو اقدامات ایک تو قتل کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرنا اور پھر قتل کے سوگ کا اعلان کرنا، ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ تنظیم کئی زبانوں میں بات کرسکتی ہے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے وہ گاندھی جی کی زیرقیادت انگریزوں کے خلاف رجعت پسندانہ تحریک تصور کرتی کیونکہ وہ ایک ہندو ملک کا باعث نہیں بنے گی۔ اس لئے اس نے جدوجہد آزادی میں حصہ نہیں لیا اور برسوں تک اپنے دفتر پر ترنگا لہرانے سے گریز کیا۔

گاندھی جی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے بلالحاظ مذہب ، علاقہ، زبان اکثر ہندوستانیوں کے دِلوں اور ذہنوں کو جیت لیا تھا۔ اس طرح وہ ہندوستانیت پر یقین رکھتے تھے اور ہندوستانیت کی راہ پر گامزن تھے۔ انہوں نے ہر کسی کو اپنے ساتھ لے کر چلا اور ملک کے سنت روایتوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عالمی قائدین گاندھی جی کے اُن اصولوں کو اہمیت دیتے ہیں جس پر زندگی بھر گاندھی جی چلتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ نے گاندھی جینتی کو عالمی یوم امن قرار دیا۔ عالمی سطح کی غیرمعمولی شخصیتوں جیسے نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ نے گاندھیائی تعلیمات سے عزم و حوصلہ حاصل کیا اور مساوات ، امن و انصاف کیلئے اپنی جدوجہد میں گاندھی جی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ ان لوگوں نے اس معاملے میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ہم گاندھی جی کی تعلیمات کے مقروض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادت برسرعام ناتھو رام گوڈسے کی تعریف و ستائش سے گریز کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ گاندھی جینتی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی قائدین برسرعام اپنی حقیقت کا اظہار کرنے لگے ہیں اور اس نظریہ کے پرچار میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں گوڈسے نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا اور گاندھی جی کے قتل کیلئے یہ لوگ نہ صرف گوڈسے کی ستائش کرتے ہیں بلکہ اس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ آر ایس ایس کے ایک سربراہ راجندر سنگھ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ گوڈسے کا ارادہ نیک تھا ، ایسے قائدین کی کثیر تعداد نجی محفلوں میں گوڈسے کی پرتشدد کارروائی کی تائید کرتی ہے اب تک گوڈسے کی کھلے عام حمایت کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مئی 2019ء میں کمل ہاسن نے کہا تھا کہ آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد ایک ہندو تھا اور اس کا نام ناتھو رام گوڈسے ہے۔ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ سوشیل میڈیا پر کمل ہاسن کو کس طرح بدنام کیا گیا اور ان کے خلاف بیان بازی کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ کمل ہاسن کے بیان کے ساتھ ہی مختلف مقامات بشمول گوالیار میں ناتھو رام گوڈسے کی مندریں تعمیر کی گئی، بالخصوص گوڈسے کے مجسمہ نصب کئے گئے۔ اسی طرح گوالیار میں اس کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم کی گئی۔ یہ وہی گوالیار ہے جہاں مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش رچی گئی تھی، تاہم عوام کی شدید مخالفت کے نتیجہ میں چند دن میں وہ لائبریری بند کردی گئی۔ ہم سب کو یہ بھی یاد ہے کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے کئی موقعوں پر گوڈسے کو ایک محب وطن قوم پرست قرار دیا۔ یہ اور بات ہے کہ ساکشی مہاراج کو اپنے بیانات واپس لینے پڑے، دوسری طرف مالیگاؤں بم دھماکہ کی ملزمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے مزید دو قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ناتھو رام گوڈسے قوم پرست تھا، قوم پرست ہے اور قوم پرست رہے گا۔ پرگیہ پر اپنا بیان واپس لینے پر دباؤ ڈالا گیا اور اسے دفاع سے متعلق پارلیمنٹ کی کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین گوڈسے کی تعریف و ستائش اور گاندھی جی کی تضحیک کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بی جے پی کی انیل سومترا نے گاندھی جی کو بابائے پاکستان قرار دیا۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں ایک مراٹھی ڈرامہ ’’می نتھو رام بولتائے‘‘ (میں ناتھو رام بولتا ہوں) دکھایا جاتا ہے۔ جب بھی یہ ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے، مہاراشٹرا کی تھیٹرس بھر جاتی ہیں اور پھر گاندھی جی کو قوم دشمن، ہندو دشمن اور مسلم موافق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی کے خلاف شائع مواد بہت زیادہ نہیں ہوسکتا لیکن اس طرح کی کتاب ’’کیا گاندھی قوم دشمن تھے‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی قائد اننت کمار ہیگڈے کے مطابق گوڈسے نے جو کچھ بھی کیا، اس کے بارے میں شرمندگی محسوس کرنا یا معذرت خواہی کا احساس رکھنے کی ضرورت نہیں، تاہم بی جے پی اعلیٰ قیادت کی جانب سے سرزنش کئے جانے کے بعد اننت کمار نے اپنا بیان واپس لیا۔ گاندھی کے خلاف نفرت کو مزید آگے بڑھانے کیلئے مودی کی زندگی پر فلم بنانے والوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب گوڈسے کی زندگی پر فلم بنائیں گے۔ اس طرح کے تمام بیانات آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے آرہے ہیں، لیکن بعض مرتبہ ان تنظیموں کے اعلیٰ قائدین مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف اپنے قائدین کی سرزنش کرتے ہیں جس سے ان کے نظریہ کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔ آر ایس ایس اپنی شاکھاؤں اور ششو مندروں کے ساتھ ساتھ صنعتی گھرانوں کے زیرکنٹرول میڈیا کے ذریعہ مذہب پر مبنی تنگ نظر قوم پرستی کو پھیلا رہی ہے، اس کے لئے وہ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کررہی ہے۔ آج گاندھی جی کے قاتل کے نظریہ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے اور گاندھی کے پیام عدم تشدد کو دبایا جارہا ہے۔