گاندھی جی کا قتل گوڈسے نے کیوں کیا؟

   

رام پنیانی
حال ہی میں ایک فلم ریلیز کی گئی جس کا نام ’’گاندھی کو میں نے قتل کیوں کیا؟‘‘ ہے۔ یہ فلم دراصل بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اسے عزت و احترام کی بلندیوں پر پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اس فلم کا ایک کلپ جو پنجاب ہائیکورٹ میں گوڈسے کے بیان سے متعلق ہے، سوشیل میڈیا پر بڑی تیزی سے گردش کررہا ہے، باالفاظ دیگر وائرل ہورہا ہے۔ اس طویل کلپ میں گوڈسے اُن واقعات کے متعلق غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اسے ایک فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ان عناصر نے آبادی کے ایک بڑے حصے کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ گاندھی ، بھگت سنگھ کی سزائے موت کو رکانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ یہ بیان 26 مارچ 1931ء کو مہاتما گاندھی نے دیا تھا۔ لارڈ اِرون کا یہ بھی کہنا تھا کہ گاندھی نے میرے روبرو بھگت سنگھ کی سزائے موت کو تبدیل کرنے کا پرزور مطالبہ کیا اور مجھ پر دباؤ ڈالا، جس پر میرا ذہن یہ سوچنے لگا کہ عدم تشدد و اَہنسا کے پیمبر نے سنجیدگی کے ساتھ بھگت سنگھ کی سزا تبدیل کرنے کی اپیل کی حالانکہ بھگت سنگھ کی راہ بنیادی طور پر خود گاندھی جی کی تعلیم، اُن کی سوچ و فکر کے برعکس تھی۔ اس لئے میں نے یہی سوچا کہ اس معاملے میں کسی کے دباؤ میں آئے بناء فیصلہ سناؤں۔
گوڈسے نے اپنے بیانات میں یہ کہا کہ گاندھی انقلابیوں کے خلاف لکھ رہے تھے اور ان کی مخالفت کے باوجود کانگریس نے اپنے ایک کنونشن میں قرارداد منظور کرتے ہوئے بھگت سنگھ کی قربانیوں اور حب الوطنی کی ستائش کی۔ گوڈسے کے اس بیان کو جو کہ بالکل غلط ہے، سوشیل میڈیا پر وائرل کیا جارہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی قربانیوں اور ان کی حب الوطنی کی ستائش کرنے والی قرارداد کا مسودہ خود گاندھی جی نے تیار کروایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ کانگریس کسی بھی شکل میں اور کسی بھی مقام پر سیاسی تشدد سے اتفاق نہیں کرتی اور خود کو دور رکھتے ہوئے سردار بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سکھدیو اور راج گرو نے جو قربانیاں دی ہیں، شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی ستائش کرتی ہے۔ ساتھ ہی غم زدہ ارکان خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ کانگریس کے خیال میں سردار بھگت سنگھ، سکھدیو اور راج گرو تینوں کی سزائے موت پر عمل آوری ایک بیہودہ انتقام ہے اور ہندوستانیوں نے ان تینوں کی سزائے موت کو تبدیل کرنے کا جو متحدہ مطالبہ کیا ہے، اس مطالبہ کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا اور اس کی توہین کرنا ہے۔ اس فلم میں انقلابیوں اور گاندھی کے درمیان اختلافات کی ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے گوڈسے نے ان کوششوں کو بھی فراموش کردیا جو گاندھی نے ساورکر برادران کی رہائی کیلئے کی تھی۔ مہاتما گاندھی کی تحریروں پر مبنی کتاب کی جلد 20 کے صفحات 369 تا 371 میں ہم ایک مضمون کا مطالعہ کرسکتے ہیں جس میں گاندھی جی نے زور دیا تھا کہ ساورکر برادران کو رہا کیا جانا چاہئے اور انہیں عدم تشدد کے طریقہ سے ملک کی سیاسی زندگی میں حصہ لینے کی اجازت دینی چاہئے، لیکن اب گوڈسے نے اپنے اس کلپ میں گاندھی جی کو سبھاش چندر بوس کے خلاف ٹھہرایا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ گاندھی اور سبھاش چندر بوس کئی ایک مسائل پر اختلافِ رائے رکھتے تھے لیکن وہ دونوں ہندوستان کی آزادی کیلئے پابند عہد تھے۔ گاندھی نے 1939ء میں سبھاش چندر بوس کی صدارت کی مخالفت کی۔ سبھاش چندر بوس کا یہ کہنا تھا کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں ہمیں جرمنی اور جاپان کا اتحادی ہونا چاہئے۔ گاندھی کا استدلال تھا کہ آزادی کے حصول کیلئے انگریزوں کے خلاف جدوجہد ہونی چاہئے۔ کانگریس کی جو مرکزی کمیٹی تھی، اس کے ارکان کی اکثریت گاندھی جی کے ساتھ تھی۔ اس کے باوجود گاندھی جی اور سبھاش چندر بوس کے دِلوں میں ایک دوسرے کیلئے بہت احترام تھا۔ جس وقت گاندھی جی نے ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ شروع کی اور تب اس کے بارے میں جان کر سبھاش چندر بوس بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ’’آزاد ہند فوج‘‘ کی کامیابی کیلئے باپو کا آشیرواد بھی طلب کیا اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وہ سبھاش چندر بوس ہی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ گاندھی جی کیلئے ’’بابائے قوم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور ’’آزاد ہند فوج‘‘ کی ایک بٹالین کو ’’گاندھی بٹالین‘‘ سے موسوم کیا۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کیلئے بھی گاندھی جی کے دل میں احترام میں رتی بھر کمی نہیں آئی، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نیتاجی کو ہمیشہ محب وطن ہندوستانیوں کا شہزادہ کہا۔ یہاں تک کہ آزاد ہند فوج کے قیدیوں سے ملاقات کیلئے جیل بھی گئے۔
گوڈسے نے گاندھی جی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ حکومت ِہند پر پاکستان کو 55 کروڑ روپئے دینے کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے جو مشترکہ خزانہ تھا اس میں 55 کروڑ روپئے پاکستان کا حصہ تھا اور گاندھی جی نے اس کیلئے مرن برت نہیں رکھا بلکہ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اپنے وعدے سے مکر جائیں گے تو دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھے گی۔ گوڈسے نے مرن برت ختم کرنے سے متعلق گاندھی جی کے شرائط میں سے ایک شرط کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر تنقید کی ۔ گوڈسے کے مطابق ان کی شرط یہ تھی کہ ہندوؤں نے جن مساجد اور مسلمانوں کی املاک پر قبضے کئے تھے ، ان کا تخلیہ کریں۔ اصل واقعہ یہ تھا کہ تقسیم نے ساری قوم کو فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں لے لیا تھا اور فرقہ پرست طاقتوں کی مدد سے ہندوؤں نے مسلمانوں کی املاک بشمول مساجد پر قبضے کرلئے تھے۔ گوڈسے نے گاندھی جی کو للکارا تھا کہ وہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات کریں۔ اس نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کردیا تھا کہ اُس وقت گاندھی جی نے جو بڑے اقدامات کئے، وہ دراصل نوخیل میں فسادات کو روکنے کیلئے کئے تھے جہاں ہندو زیادہ متاثر ہوئے۔ گاندھی جی نے اسی طرح کی اپیل پاکستان کیلئے بھی کی ۔ ان کا ایقان تھا کہ ہندوستان میں اگر مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا تو وہ پاکستان جاکر وہاں بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں کے تحفظ کیلئے بہت کچھ کرتے ۔ انہوں نے امن کو اخلاقیات کی واضح کارروائی قرار دیا اور کہا تھا کہ اگر ہم دہلی میں امن قائم کرتے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں بھی حالات پرامن ہوجائیں گے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا اور جب میں پاکستان جاؤں گا تو میں ہندوؤں اور سکھوں کیلئے اپنی جان دے دوں گا۔ عدالت میں گوڈسے نے جھوٹ پر جھوٹ بولا ۔ ابتداء میں سردار پٹیل کا کہنا تھا کہ گاندھی کا قتل ہندو مہا سبھا کی سازش کا ایک حصہ ہے اور بعدازاں جیون لال کپور کمیشن نے یہ خیال ظاہر کیا کہ گاندھی جی کا قتل دراصل ساورکر اور اس کے گروہ کی سازش کا نتیجہ تھا اور جو دوسرے تمام نظریہ پیش کئے گئے، وہ اس سازش کو چھپانے کیلئے پیش کئے تھے ۔
گاندھی جی کے قتل کا اصل مقصد یہ تھا کہ گاندھی جی شمولیاتی قوم پرستی کو فروغ دے رہے تھے اور یہ انقلابیوں کا خواب تھا جس میں بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس بھی شامل تھے۔ گاندھی جی کو قتل کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ چھوت چھات اور ذات پات کے امتیاز کے خلاف کام کررہے تھے اور گوڈسے کی ہندو قوم پرستی دونوں کی مخالف تھی۔