گجرات کی ترقی ،مودی کے بلند بانگ دعوے

   

راج دیپ سردیسائی
’’ہم نے اِس گجرات کی تعمیر کی ‘‘، وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بات بڑے پرزور انداز میں اپنی آبائی ریاست گجرات میں کہی، وہ ریاستی اسمبلی انتخابات کی تواریخ کے اعلان کے فوری بعد منعقدہ ایک انتخابی ریالی سے خطاب کررہے تھے۔ وزیراعظم دراصل گجرات کی ترقی کا عملاً کریڈٹ اپنے سر باندھ رہے تھے۔ ویسے بھی وہ گزشتہ 20 برسوں سے اسی طرح کے دعوے کرتے ہیں اور خود کو گجرات کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (CEO) کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ مودی جہاں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے گجرات کو بنایا، سجایا، سنوارا، وہیں وہ گجراتی فخر کی بات کرتے ہوئے سیاسی مفادات کی تکمیل کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2002ء سے جب نریندر مودی بحیثیت چیف منسٹر انتخابی میدان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے بار بار گجراتی عزت نفس کا نعرہ لگایا اور گجراتی عزت نفس کا کارڈ کھیلتے رہے۔ 2002ء کی گجرات گورو یاترا کو یاد کریں جب مودی گجرات فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے میں ان کی حکومت کی ناکامی کو لے کر کی جانے والی تنقیدوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کررہے تھے کہ یہ دراصل گجراتی عوام کے خلاف باہر کے لوگوں کی رچی کئی ایک سازش ہے۔
سال 2007ء میں بھی مودی اور بی جے پی نے ’’جیتے گا گجرات‘‘ جیسا نعرہ بلند کیا تھا جو دراصل مودی کے اس خیال کا حوالہ تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مرکز میں برسراقتدار کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت نے گجرات کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ 2017ء کی مہم میں بھی کانگریس نے جب ترقی ’’پاگل ہوگئی ہے‘‘ کا نعرہ لگایا، اس کے جواب میں مودی اور بی جے پی نے ’’میں ہوں گجرات ،میں ہوں ترقی‘‘ کا نعرہ لگایا غرض ہر موضوع پر بی جے پی (مودی) نے ایسی حکمت عملی اپنائی جس کے ذریعہ مودی کی قیادت اور گجرات کے رائے دہندوں کو جذباتی بندھن میں باندھا گیا اور کہا گیا کہ مودی اور گجراتی عوام کے مفادات ایک ہی ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہیں، انہیں کسی طرح بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ گجرات کے سب سے زیادہ مدت تک چیف منسٹر کی حیثیت سے اور اب بطور وزیراعظم اپنی دوسری میعاد میں مودی یقینا گجرات کے نیتا نمبر1 ہیں اور اس سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا۔ چاہے وہ ایک بیرونی ملک کے سربراہ کے ساتھ احمدآباد آئیں یا اربوں روپئے لاگتی پراجیکٹس کا افتتاح کریں، ہر تقریب میں سب سے زیادہ اہمیت مودی حاصل کرتے ہیں اور اب تو تمام سیاسی حلقوں سے لے کر بی جے پی میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہر مقام پر مودی خود کو سب سے آگے رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہر مقام پر عہدیدار میڈیا اور عوام سب کے سب انہیں زیادہ سے زیادہ اہمیت دیں۔ انہوں نے اس کیلئے ’’فرزند گجرات‘‘ کی اپنی شبیہ بنالی ہے، لیکن جیسا کہ مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے گجرات کی تعمیر کی ہے تو کیا مودی ہی جدید گجرات کے واحد معمار ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو گجرات میں صنعتیانے کا عمل اُس وقت تیزی اختیار کرگیا تھا جب 1990ء کے اوائل میں چمن بھائی پٹیل گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ مثال کے طور پر گوتم اَڈانی کو اپنا پہلا موقع چمن بھائی پٹیل انتظامیہ کے دوران ہی ملا تھا۔ مودی کے ایک اور پیشرو مادھو سنہہ سولنکی نے ریاست میں سماجی و معاشی طور پر کمزور طبقات کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ انہیں فوائد فراہم کئے جس میں مڈ ڈے میل اسکیم بھی شامل ہے۔ مودی اور ان کے حامی مسلسل ’’گجرات ماڈل‘‘ کی باتیں کرتے ہیں لیکن گجرات ماڈل میں تاریک نکات بھی ہیں، ناکامیاں اور غلطیاں بھی رہیں، خاص طور پر علاقائی تفاوت، مثال کے طور پر شہری علاقوں میں دولت اور مواقع پر توجہ دی گئی جبکہ غیرموثر بلدی حکمرانی (موربی سانحہ)، صحت عامہ کی ناکافی سہولتیں (کورونا وباء کے دوران جن کا انکشاف ہوا) اور نظام تعلیم کے معاملے میں بھی گجرات کی حالت ہے۔ مثال کے طور پر 2018-19ء میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق جو سروے کیا گیا، اس میں 36 ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں میں گجرات کو 26 واں مقام حاصل ہوا ہے (طلبہ۔ ٹیچر تناسب کے لحاظ سے) دوسری طرف گجرات میں کثیر تعداد میں بچے ناقص غذا کا شکار ہیں جو یقینا تشویش کی بات ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (2019-20) میں کہا گیا کہ ریاست میں تقریباً 39.7% بچے (پانچ سال سے کم عمر کے بچے) ناقص غذا کے باعث کم جسمانی وزن کا شکار ہیں۔ 2005-06ء میں یہ 45% تھا جبکہ قومی اعداد و شمار 2019-20ء میں 32.1% تھا اور 2005-06ء میں یہ 42.5% رہا۔ دوسرا تلخ پہلو اُس وقت سامنے آیا جب 1.7 ملین لوگوں نے ویلیج ایڈمنسٹریٹر کی 3,400 جائیدادوں کیلئے درخواستیں دیں جس سے دیہی نوجوانوں میں پائی جانے والی بیروزگاری کی خطرناک شرح کا اظہار ہوتا ہے۔