گری راج سنگھ ڈرپوک نکلے ، کنہیا کمار کا مقابلہ کرنے سے انکار

,

   

پارٹی قیادت پر برہمی ، عزتِ نفس پر سمجھوتہ نہ کرنے مرکزی وزیر کا اعلان
نئی دہلی۔ 26 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) بہار کا پارلیمانی حلقہ بیگو سرائے آج کل بہت زیادہ خبروں میں ہے، اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس حلقہ سے سی پی آئی نے جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کو میدان میں اتارا ہے اور بی جے پی نے اس حرکیاتی نوجوان کے خلاف اپنی پارٹی کے طاقتور لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ کو امیدوار بنایا ہے جہاں تک کنہیا کمار کا سوال ہے، وہ اپنی غیرمعمولی انداز گفتگو کے ذریعہ عوام کو بہ آسانی کسی بھی مسئلہ پر قائل کرانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ جو بھی بات کرتے ہیں، پورے دلائل کے ساتھ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ باتوں میں کنہیا کمار سے بی جے پی کا کوئی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کرسکتا چاہے وہ سمبت پاترا جیسا بی جے پی کا ترجمان ہو یا پھر صدر بی جے پی امیت شاہ اور جملے بازی میں ماہر وزیراعظم نریندر مودی غرض کوئی بھی کنہیا کمار کے سامنے ٹک نہیں سکتا چنانچہ اس کا احساس فرقہ پرستی کے زہر آلو الفاظ کا مسلسل استعمال کرنے والے گری راج سنگھ کو بھی ہے۔ کنہیا کمار سے ان کے خوف کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے بیگو سرائے سے امیدوار بنائے جانے کے باوجود اس حلقہ سے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ انہوں نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی قیادت نے باہر کے موجود ارکان پارلیمان میں سے کسی کا حلقہ تبدیل نہیں کیا، صرف ان کا حلقہ تبدیل کیا ہے

اور اس معاملے میں ان سے بات چیت بھی نہیں کی گئی وہ اسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ تصور کرتے ہیں اور اپنی عزت نفس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آپ کو بتادیں کہ گری راج سنگھ بہار کے پارلیمانی حلقہ نوادہ کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن اب پارٹی قیادت نے انہیں نوادہ کی بجائے بیگو سرائے سے امیدوار بنایا ہے۔ انہوں نے اشارہ دے دیا ہے کہ وہ بیگو سرائے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں کرسکتے کیونکہ بی جے پی کے اس اقدام سے ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہونچی ہے۔ انہوں نے بی جے پی کی ریاستی قیادت سے سوال کیا ہے کہ آخر کس بنیاد پر ان کا حلقہ تبدیل کیا گیا ہے جبکہ دوسرے امیدواروں کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔ میں بیگو سرائے کے خلاف نہیں ہوں لیکن اپنی عزت نفس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ گری راج سنگھ کو جو اپنے مسلم دشمن بیانات کے ذریعہ خبروں میں رہنے کی لت پڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے کنہیا کمار کے خلاف نامزد کیا ہے۔ جس کے ساتھ ہی شاید ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہوں اور ان پر کنہیا کی ہیبت طاری ہوگئی ہو۔ اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں گری راج سنگھ کہتے ہیں کہ وہ 1996ء سے ہی بیگو سرائے سے مقابلہ کرنے کی خواہش ظاہر کرتے رہے، لیکن پارٹی نے ان کی خواہش کا احترام نہیں کیا۔ اب نوادہ حلقہ رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی کو دیا گیا ہے اور انہیں کنہیا کمار جیسے شعلہ بیان مقرر اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان کے سامنے ڈال دیا گیا ہے۔ گری راج سنگھ بیانات تو بہت بڑے دیتے ہیں لیکن کنہیا کے نام سے ان پر جو خوف طاری ہوا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مقابلہ سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ بہرحال گری راج سنگھ کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے‘‘۔ شاید اس محاورے سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔