: ہتھیلی میں جنت : اسلامک سنٹر ابھی بہت دور، بنجارہ و آدیواسی بھون کی تعمیر مکمل

,

   

اقتدار کی پہلی میعاد میں ایوان اسمبلی میں کیا گیا چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کا اعلان ہنوز کاغذی

حیدرآباد۔ 28 ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹرسمیتی نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو انتخابات کے دوران ڈھیر سارے وعدے کرتے ہوئے ہتھیلی میں جنت دکھائی۔ مسلمانوں نے چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ پر بھروسہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کو ایک نہیں دوسری مرتبہ حکومت تشکیل دینے میں اہم رول ادا کیا مگر حکومت مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے مسلمانوں کو مایوس کررہی ہے۔ واضح رہے کہ ٹی آر ایس حکومت کی پہلی میعاد میں چیف منسٹر کے سی آر نے مسلمانوں کیلئے انٹرنیشنل اسلامک سنٹر عصری تقاضوں سے لیس تعمیر کرنے اور بڑے عالم دین سے اس کا افتتاح کرانے کا اعلان کیا تھا مگر ایوان اسمبلی میں کئے گئے اس اعلان پر آج تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا حکومت کے پاس مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں پر خرچ کرنے کیلئے فنڈس کی کمی ہے یا سرکاری اراضی نہیں ہے۔ اگر سب کچھ ہے تو پھر کیا حکومت یا چیف منسٹر اس کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو مسلمانوں کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں جس کی وضاحت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مسلم قیادت خاموش ہے ٹی آر ایس کے مسلم قائدین چیف منسٹر کے سی آر سے نمائندگی بھی نہیں کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر خالی مسلمانوں کے لئے کوئی زبانی اعلان کرتے ہیں تو ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین چیف منسٹر کی تصویر کو دودھ سے نہلاتے ہوئے جشن مناتے ہیں۔ مگروعدوں پر عمل آوری نہیں ہو رہی ہے تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چیف منسٹر کے سی آر نے اسمبلی سے ہی ٹی آر ایس کی پہلی میعاد میں قبائیلی طبقات کے لئے آدی واسی بھون اور بنجارہ بھون تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے اور بنجارہ ہلز کے روڈ نمبر 10 پر تقریباً 50 کروڑ روپے کے مصاف سے عصری سہولتوں سے لیس دونوں بھونس تعمیر کردیئے اور چیف منسٹر کے سی آر نے جاریہ ماہ 17 ستمبر کو دونوں بھونس کا افتتاح کردیا۔ بنجارہ بھون کی خصوصیت یہ ہیکہ 21.71 کروڑ روپے کے مصارف سے یہ عمارت تعمیر کی گئی ہے جس میں 1000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش کے ساتھ عالیشان آڈیٹوریم تعمیر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی 250 لوگوں کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا ڈائننگ ہال اور تین وی آئی پی لاونچس گیلری کی خصوصیات یہ ہیکہ فوٹو گیلری لائبریری، پینٹنگز اور آرٹ ورکس۔ اس طرح آدی واسی بھون 21.50 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے جس میں بھی 1000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش پر مشتمل آڈیٹوریم 250 لوگوں کے بیٹھ کر کھانا کھانے کا ڈائننگ ہال، میڈیا، فوٹو گیلری، لائبریری، پینٹنگز اور تین وی آئی پی لاونچس وغیرہ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ ساتھ ہی 17 ستمبر کو چیف منسٹر کے سی آر نے ایس ٹی تحفظات کو 10 فیصد تک توسیع دینے اور قبائیلی طبقات کے لئے گریجن بندھو کا بھی اعلان کردیا ہے۔ تلنگانہ میں موجود ایس ٹی طبقات کے 6 فیصد تحفظات میں مزید 4 فیصد کا اضافہ کرنے کے لئے محکمہ قبائیلی بہبود نے تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ ماضی میں فراہم کردہ تحفظات کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ماہرین قانون سے مشاورت کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی قبائیلی طبقات کو 10 لاکھ پر مشتمل گریجن بندھو فراہم کرنے کے لئے رہنمایانہ خطوط تیار کئے جارہے ہیں جس پر مسلمانوں کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ مگر مسلمانوں کی حق تلفی بھی نہیں ہونی چاہئے۔ مسلمان جنہیں اپنا نمائندہ بناکر ایوانوں کو بھیج رہے ہیں وہ مسلمانوں کی آواز بن کر گونجنے میں ناکام ہے۔ ٹی آر ایس کے منتخب اور نامزد عہدوں پر فائز قائدین اور پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر خدمات انجام دینے والے قائدین بھی خاموش ہیں۔ شاید انہیں خوف ہے اگر وہ مسلمانوں کے مسائل اور پارٹی کے وعدوں کو یاد دلاتے ہیں تو انہیں عہدے نہیں ملیں گے یا وہ جن عہدوں پر فائز ہیں اس سے انہیں ہٹا دیا جائے گا۔ 4 فیصد مسلم تحفظات کا سپریم کورٹ میں دفاع کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے چیف منسٹر کے سی آر نے ابھی تک اعلیٰ سطحی کوئی اجلاس طلب نہیں کیا اور نہ ہی ماہرین قانون سے کوئی مشاورت کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ چیف منسٹر کے سی آر 4 فیصد مسلم تحفظات کے لئے کتنا سنجیدہ ہیں۔ 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے کا کے سی آر نے وعدہ کیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کے 8 سال مکمل ہونے کے باوجود اس پر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ چیف منسٹر کے سی آر نے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، اقتصادی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سدھیر کمیٹی تشکیل دی تھی۔ سدھیر کمیٹی نے بھی مختلف امور کا جائزہ لینے کے بعد اقلیتوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے چند سفارشات کی تھیں اس پر بھی کوئی عمل آوری نہیں کی جارہی ہے۔ 10 فیصد سے کم آبادی رکھنے والے ایس ٹی طبقات کا بجٹ بھی زیادہ ہے اور انہیں تمام رعایتیں اور سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں مگر 12 فیصد مسلم آبادی کو یکسر نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ بجٹ بھی کم ہے اور کبھی بھی مکمل بجٹ کی اجرائی عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کوئی نئی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام کیا مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ ن