ہری دوار میں نفرت کی تقریب کے دور ہندوتوا لیڈران نے مسلمان کی نسل کشی کے عزم کا اظہار کیا

,

   

ہندوتوا کے بہار نمائندے دھرمیندر مہاراج نے اقلیتوں کی حمایت کرنے پر کھلے عام سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے قتل کی خواہش ظاہر کی ہے


ہری دوار۔ ہندوتوا پرچم کی پاسبانی کے دعویدار اور نفرت انگیز بیان بازیوں کے لئے پہچانے جانے والے یاتی نرسنگ آنند نے اتراکھنڈ کے ہری دیوار میں تین روز تقاریب منعقد کئے جس میں ہندوتوا قائدین کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات پرحملے کرنے کے عزم کا اظہار کیاگیاہے۔

مذکورہ تین دنوں کے ’دھرم سنسد“ جس کا 17-19ڈسمبر انعقاد عمل میں آیاتھا کا ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائیرل ہورہے ہیں جس میں متعدد شخصیات مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں جس کے ساتھ نعرہ ’شاستر مے وجیتا“ نعرے بھی لگائے جارہے ہیں۔ نفرت بھری یاتی دعوی کررہا ہے کہ ہتھیار کے بغیر کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکتے۔

اس نے مزیدکہاکہ صرف معاشی بائیکاٹ کام کرے گا اور ہندوگروپس کو خود کو جوڑے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور زہر اگلنے کی وجہہ سے پہچانے جانے والے یاتی نے کہاکہ ”تلواریں صرف اسٹیج پر ہی اچھی لگتی ہیں۔ یہ جنگ وہی جیتے گا جس کے پاس شاندار ہتھیار ہیں“۔

پروگرام کو ”شاسترا مے وجیتا“ کا مقصد دیتے ہوئے یاتی نے مسلمانوں کے خلاف مصلح تشدد کو اکسانے کی بات کہی ہے۔ ہندو مہاسبھا جنرل سکریٹری اور مہامندلیشوار برائے نرنجن اکھاڑا‘ انا پورنا ما نے بھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد بغاوت کی بات کی۔انہوں نے کہاکہ ”اگر تم انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان مار کر جیل جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

ہمیں ایسے 100سپاہیوں کی ضرورت ہے جو ان میں سے 20لاکھ کوقتل کریں۔ ہم فاتح ہوں گے۔ کتابیں اور دیگرمطالعہ کی چیزیں بازو رکھیں اور اپنے ہتھیار اٹھائیں“۔

ہندوتوا کے بہار نمائندے دھرمیندر مہاراج نے اقلیتوں کی حمایت کرنے پر کھلے عام سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے قتل کی خواہش ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اگر میں اسوقت پارلیمنٹ میں ہوتا جب سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہاتھا کہ قومی وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے تو میں ناتھو رام گوڈسے کے نقش قدم پرچلتااو رایک ریوالور سے ان کے سینے میں چھ گولیاں داغ دیتا تھا“۔

دھرمیندر دراصل نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے 2006میں دہلی میں 52ویں اجلاس کے موقع پر سنگھ کے بیان کا حوالہ دے رہے تھے۔

وارناسی نژاد تنظیم شنکر اچاریہ پریشد کے صدر اور ایک ہندو لیڈر آنند سواروپ مہاراج نے کہاکہ ”اگر حکومت ہمارے مطالبات نہیں سنتی ہے (اقلیتوں پرتشدد کے ذریعہ ایک ہندو راشٹر قائم کریں) ہم 1857کی بغاوت کے طرز پر جنگ کردیں گے“۔

سواروپ کا دعوی ہے کہ انہوں نے لوگوں‘ ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کو ہری دیوار میں کرسمس تقاریب منانے کے خلاف دھمکی دی اور سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنے کا انتباہ دیا۔

انہوں نے اس سال لوگوں کوعید اور کرسمس نہیں منانے دینے کے عزم کااظہار کیااور کہاکہ اتراکھنڈ کی سرزمین”ہندوؤں کی ہے“ اور اس کے لئے یہ تقریبات ”غیر ائینی“ ہیں۔

سواروپ کو شنکر آچاریہ ٹرسٹ او رگنگا مشن کا صدر بھی ہے نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کااظہار کرتا رہا ہے۔

اسی سال کی ابتداء میں ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں مبینہ طور سواروپ مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے‘ جس کی جانچ اترپردیش پولیس نے کی ہے۔

سانگر سندھو راج ایک اور ہندوتوا مبلغ نے کہاکہ ”میں بارہا یہ بات کہہ رہاہوں کہ 5000کا موبائیل فون اچھا ہے مگر ہمیشہ کم سے کم ایک لاکھ کا ہتھیار ساتھ رکھنا چاہئے۔

گھر میں ہمیشہ ایک ہتھیار موجود رہنا چاہئے تاکہ اگر کوئی گھر پر ائے تو وہ واپس لوٹ کر جا نہ سکے“۔