ہمارا صبر تمہیں خاک میں ملادے گا

,

   

بابری سے گیان واپی تک … سلسلہ کہاں رکے گا
عدالتوں کا سہارا … مودی کی خاموشی نیم رضامندی

رشیدالدین
دنیا میں کہیں بھی اچھے کاموں کے معاملہ میں مسابقت دیکھی جاتی ہے لیکن ہندوستان میں نفرت ، تعصب ، فرقہ پرستی اور تشدد کے معاملہ میں مقابلہ آرائی کا رجحان عام ہوچکا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین میں اس بات کو لے کر دوڑ چل پڑی ہے کہ کون کس قدر اشتعال انگیزی پھیلائے گا۔ کس کا بھڑکاؤ بھاشن سماج کو توڑنے کا کام کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ تعمیر کے بجائے جب تخریب کے لئے توانائیاں صرف ہونے لگیں تو پھر ملک کی تباہی کا آغاز ہوجائے گا ۔ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ابتدائی دور میں عوام کو جو خواب دکھائے اس سے یہ خوش فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ گجرات کے مودی دہلی میں بدل چکے ہیں۔ عوام نے بھی خوش کن نعروں پر بھروسہ کرتے ہوئے حکومت سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں لیکن دوسری میعاد کے حصول کے بعد حقیقی چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ترقی اور بھلائی کا نام لیوا باقی نہیں رہا۔ جس نے بھی زبان کھولی سوائے زہر اگلنے کے کچھ نہیں ہے۔ ہندو راشٹرا کے قیام کے لئے معمولی کارکن سے لے کر قیادت تک ہر کسی نے کمر کس لی ہے اور ہر کسی کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ عبادتگاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے کی سازش کی گئی ہے ۔ فسادات اور خون ریزی سے مسلمانوں کو مرعوب اور خوفزدہ نہیں کیا جاسکا۔ لہذا عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا کھیل شروع کیا گیا ۔ ملک کے ہر طول و عرض میں تاریخی اور اہم مساجد کی فہرست تیار کی گئی ۔ مخالفین جانتے ہیں کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن عبادتگاہوں سے ان کی وابستگی اٹوٹ ہوتی ہے ۔ لہذا عبادتگاہوں کو مندر قرار دینے کی مہم شروع کی گئی۔ ملک کے کسی نہ کسی علاقہ سے روزانہ کسی ایک عبادتگاہ کو متنازعہ بنانے کی اطلاعات مل رہی ہیں ۔ لو جہاد کی مہم اثر انداز نہ ہوسکی اور گاؤ رکھشا کا معاملہ خود گلے کی ہڈی بن گیا۔ کرناٹک میں جب گائے آپ کی ماں ہے تو گوا اور شمال مشرقی علاقوں میں سوتیلی کیسے ہوگئی ، جہاں کاٹنے اور فروخت کرنے کی قانونی طور پر اجازت ہے ۔ مغل بادشاہوں اور خاص طور پر اورنگ زیب کے نام پر نفرت کا پرچار کیا جارہا ہے ۔ جہد کار جاوید اختر کے مطابق ہندوستان کی تاریخ شہنشاہ اکبر کے بغیر ادھوری رہے گی۔ جس وقت دنیا نے سیکولرازم کا نام تک نہیں سنا تھا ، اکبر نے حقیقی سیکولرازم کا اپنی حکمرانی سے ثبوت دیا ۔ مغرب میں عیسائی آپس میں خون بہا رہے تھے ، وہیں ہندوستان میں اکبر اعظم نے سیکولرازم پر عمل کیا۔ مغلوں کو گالی دینے والے تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ مغلوں کے دور میں ہندوستان دنیا کا سب سے دولتمند ملک تھا ، چنانچہ ہمایوں کے دربار میں جب انگریز تاجر تجارت کی اجازت کیلئے پہنچا تو اسے کہنا پڑا کہ ہندوستان میں سب کچھ ہے، کس چیز کی ہم تجارت کریں گے۔ مغلوں کے نام سے نفرت لیکن ان کے بغیر گزارا بھی نہیں۔ آج بھی فلم انڈسٹری اور میڈیا کی ٹاپ پرسنالیٹی کو ’’مووی مغل‘‘ اور ’’میڈیا مغل‘‘ کہا جاتا ہے ۔ شاہجہاں اور اورنگ زیب کی یادگاروں سے دشمنی کی جارہی ہے حالانکہ ان کی نسل در نسل ہندوستانی تھی۔ یہ تمام ہندوستان میں بس گئے اور یہیں دفن ہوئے۔ کئی مغل شہنشاہوں کی پیدائش اور موت ہندوستان میں ہوئی۔ انگریزوں نے ہندوستان کی دولت کو لوٹ کر باہر منتقل کیا لیکن مغلوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ خود ہندوستانی ہوچکے تھے۔ مغل حکمرانوں کی یادگاروں کے بغیر ہندوستان کا وجود ادھورا ہے۔ بابر پر مندر توڑکر بابری مسجد تعمیر کرنے کا الزام سپریم کورٹ میں جھوٹا ثابت ہوا۔ جب بابر نے ایسا کچھ نہیں کیا تو ان کی نسل مندروں کو منہدم کر کے مساجد کیوں تعمیر کرے گی۔ اگر بی جے پی میں ہمت ہو تو لال قلعہ سے قومی پرچم لہرانا اور وزیراعظم کا قوم سے خطاب بند کریں اور قلعہ کو منہدم کردیں۔ جن کا نام لے کر مسلمانوں کو گالی دی جارہی ہے ، ان کی یادگار نے ترنگا کو اپنے سر پر سجایا ہے۔ لال قلعہ نے ترنگا کی عظمت میں اضافہ کیا ہے ۔ مورخین کا یہاں تک کہنا ہے کہ مغل ، قطب شاہی اور سلاطین آصفیہ کے ملک پر احسانات ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ملک کو دیا ہے، اس سے لیا کچھ نہیں۔ سلطنت آصفیہ کے خاتمہ کے بعد چین سے جنگ کا مرحلہ آیا تو ہندوستانی حکومت کو معزول آصف سابع میر عثمان علی خاں سے رجوع ہونا پڑا۔ جس حکمراں پر تعصب اور ملک دشمنی کا الزام عائد کیاجاتا ہے ، ان کی حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے 5 ٹن سونے کا عطیہ دیا جس کی مثال شائد ہی ہندوستان کی تاریخ میں آئندہ بھی مل پائے گی۔ ’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔ ہم یہاں پر مغلوں یا کسی اور مملکت کی ترجمانی نہیں بلکہ تاریخی حقائق کو پیش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو بابر اور اورنگ زیب کی اولاد یا پھر آبا و اجداد کے ہندو ہونے کی بات کرنے والوں کو پتہ نہیں کہ اسلام کے قافلے سمندر کے راستے کیرالا پہنچے تھے اور وہیں سے مسلمانوں کی آمد ہوئی ۔ مسلمان دراصل مغلوں سے بہت پہلے ہی ہندوستان میں موجود تھے ۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کو نظام حیدرآباد کی امداد ایک تاریخی سچائی ہے ۔ مسلم بادشاہوں کے دربار میں غیر مسلموں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔ اس سے بڑھ کر رواداری کی مثال اور کیا ہوگی۔ فرقہ پرست طاقتیں اقتدار ملتے ہی کچھ اس طرح بے قابو ہوچکی ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر کریں تو کیا کریں۔ ایسے لوگوں کیلئے حیدرآباد میں محاورہ مشہور ہے کہ ’’نادیدہ کو ملیدہ ملا تو فاتحہ دینے ملا نہیں ملا‘‘۔
عبادتگاہوں کے خلاف مہم پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ ہر مسئلہ پر تبصرہ کرنے اور من کی بات سے ہندوستانیوں کو درس دینے والے نریندر مودی کے من میں نفرت کی سرگرمیوں کی مخالفت کا خیال کیوں نہیں آرہا ہے ۔ وزیراعظم کے طور پر دستور اور قانون کی پاسداری کا حلف لینے والے نریندر مودی کی خاموشی کہیں نیم رضامندی تو نہیں ؟ مودی حکومت کو عبادتگاہوں سے متعلق 1991 ء کے قانون کے بارے میں موقف واضح کرنا چاہئے ۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی ارکان کی موجودگی میں یہ قانون سازی کی گئی تھی ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سیکولر جماعتیں عبادتگاہوں کے مسئلہ پر لب کشائی سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں اکثریتی طبقہ کے ووٹ بینک کی فکر ہے۔ اکثریت کے ووٹ سے محرومی کے اندیشہ نے قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوںکی آواز بند کردی ہے ۔ چند مٹھی بھر عناصر کی سرگرمی سے یہ اندازہ کرلینا کہ اکثریتی فرقہ کا مجموعی طور پر یہی رجحان ہے تو یہ خام خیالی ہے۔ ہندوؤں کی اکثریت آج بھی سیکولر اور مذہبی رواداری پر اٹوٹ ایقان رکھتی ہے اور فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں انہیں قبول اور منظور نہیں ہے ۔ بابری مسجد سے جس تنازعہ کا آغاز کیا گیا تھا ، وہ مختلف مساجد سے گزر کر متھرا پہنچ چکا ہے۔ گیان واپی مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ نے ضلع کورٹ کے حوالے کردیا حالانکہ سپریم کورٹ کو چاہئے تھا کہ وہ 1991 ء قانون کی روشنی میں درخواستوں کو مسترد کرتا ۔ قطب مینار میں مندروں کی بحالی پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے دو ٹوک موقف اختیار کیا اور کہا کہ تاریخی یادگار کو مندر میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بھی عدالت نے اس معاملہ کا فیصلہ جون تک ٹال دیا ہے۔ کرناٹک میں ٹیپو سلطان کی تعمیر کردہ مسجد کے بعد ایک اور مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔ متھرا کی شاہی مسجد کو کرشن جنم بھومی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ نفرت کا طوفان تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اجمیر میں خواجہ اجمیری کی بارگاہ کو لارڈ شیوا کا مندر قرار دینے کی درخواست حکومت کو پیش کی گئی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی بارگاہ ہے جہاں بلا لحاظ مذہب وملت لوگ روحانی فیض حاصل کرنے کیلئے پہنچتے ہیں۔ جنہوں نے دنیا کو انسانیت اور امن کا پیام دیا تھا، آج ان کی بارگاہ کو متنازعہ بنانے کی سازش کی گئی۔ مدارس اور مساجد کے بعد اب درگاہوں کا احترام پامال کیا جارہا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کی ہر بڑی بارگاہ کو عدالت میں گھسیٹ کر سروے کے نام پر متنازعہ بنایا جائے گا ۔ سروے کی عدالتوں میں درخواست اور کھدائی کا مطالبہ ملک میں شائد ہی کسی عبادتگاہ کو باقی رکھے گا ۔ یہ رجحان دراصل ملک میں خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کسی قائد اور مجموعی اتحاد کا انتظار کئے بغیر مقامی سطح پر منظم ہوجائیں اور عبادتگاہوں کا تحفظ کریں۔ اپنی سطح پر اور اپنی بساط کے مطابق تحفظ اوردفاع کے بغیر فرقہ پرستوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ تلنگانہ جو فرقہ پرستی سے پاک رہا ، اب وہاں بھی بی جے پی نفرت کا زہر گھول رہی ہے ۔ ریاستی صدر بنڈی سنجے نے تمام مساجد کی کھدائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا ہے۔ ہندوستان بھر میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ منظر بھوپالی نے ایسی طاقتوں کو کچھ یوں جواب دیا ہے ؎
ہمارا صبر تمہیں خاک میں ملادے گا
ہمارے صبر کا تم کو اثر نہیں معلوم