ہمارے ساتھ یہ مکاریاں نہیں چلتیں

,

   

موہن بھاگوت … پریوار کے ارکان سے ملاقات
مسجد اور مدرسہ ایک بہانہ … گیان واپی مسجد اصل نشانہ

رشیدالدین
سنگھ پریوار کے سربراہ کی اپنے ہی پریوار کے ارکان سے ملاقات میں تعجب اور نئی بات کیا ہے ۔ ان دنوں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی مسلمانوں سے ملاقات کی خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ بعض مسلم دانشوروں سے ملاقات کے بعد بھاگوت کا دہلی میں ایک مسجد اور دینی مدرسہ کا دورہ بھلے ہی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن گودی میڈیا اس ملاقات کو مسلمانوں سے قریب ہونے اور غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ موہن بھاگوت کو مسلمانوں کے ہمدرد کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے تاکہ عام مسلمان سنگھ پریوار کی نفرت بھری مہم اور ہندوتوا ایجنڈہ سے غافل رہیں۔ وہ دن بھی ہمیں یاد ہے جب موہن بھاگوت نے جمیعۃ العلماء کے صدر مولانا ارشد مدنی کو ملاقات کی دعوت دی تھی ۔ ان کی ملاقات ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات کے پش منظر میں ہوئی تھی ۔ موہن بھاگوت نے ہجومی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے آر ایس ایس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار ایجنڈہ ناگپور میں طئے ہوتا ہے۔ مولانا ارشد مدنی سے بھاگوت کی ملاقات کے بعد بھی ہجومی تشدد اور مظالم کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا ۔ اب جبکہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سرگرمیاں عروج پر ہیں، بابری مسجد کے بعد گیان واپی مسجد نشانہ پر ہے۔ نپور شرما کے گستاخانہ بیان سے مسلمانوں میں بے چینی ہے۔ دینی مدارس پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ دینی مدارس کے سروے کے نام پر ہراسانی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم کا فیصلہ کیا گیا ۔ بی جے پی ریاستوں میں لو جہاد کے نام پر قانون سازی کی گئی۔ اترپردیش میں اوقافی جائیدادوں کے سروے کے نام پر جائیدادوں اور اراضیات کو ہڑپنے کا پلان ہے۔ الغرض مخالف مسلم سرگرمیوں کے دوران موہن بھاگوت نے مسلمانوں تک رسائی کا دور شروع کیا۔ گزشتہ ماہ چند دانشوروں سے جن میں بی جے پی کے پروردہ اور پسندیدہ افراد شامل ہیں، بھاگوت نے ملاقات کی جس کا انکشاف ایک ماہ بعد ہوا ۔ اگر ملاقات میں شفافیت ہوتی تو رازداری کی ضرورت کیا تھی ؟ ملاقات کے دوران زیر بحث امور اور نتیجہ کا آج تک اظہار نہیں کیا گیا۔ دانشوروں کے بعد آر ایس ایس کی حلقہ بگوش تنظیم کے نام نہاد مذہبی قائدین سے ملاقات کی گئی۔ آئمہ مساجد کی قومی تنظیم روایاتی طور پر آر ایس ایس اور بی جے پی کی حاشیہ برداروں میں شمار کی جاتی ہے اور نریندر مودی کے ساتھ اس تنظیم کے کئی پروگرام ہوچکے ہیں۔ تنظیم کے صدر کا گھر مسجد کے احاطہ میں ہے اور بتایا جاتا ہے کہ تنظیم کے بانی کی برسی کے موقع پر موہن بھاگوت کو دعوت دی گئی۔ میڈیا میں چلایا گیا کہ موہن بھاگوت پہلی مرتبہ کسی مسجد کو پہنچے۔ مسجد کے احاطہ میں گھر کا ہونا بھی گودی میڈیا اور چاٹوکار اینکرس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا۔ کسی نے کہا کہ برف پگھل رہی ہے۔ کسی نے کہا کہ بھاگوت نے مسلمانوں تک پہنچ کر اپنے کھلے دل کا ثبوت دیا ہے ۔ الغرض جتنے چیانل اتنی تعریفیں۔ آر ایس ایس کی پروپگنڈہ مشنری متحرک ہوگئی اور موہن بھاگوت کے مسجد پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ آئمہ مساجد تنظیم کے سربراہ کا گھر مسجد کے احاطہ میں ہے۔ وہاں سے بھاگوت ایک دینی مدرسہ گئے اور طلبہ سے بات چیت کی ۔ بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا مشورہ دے کر بھاگوت مسلمانوں کے مسیحا بن گئے ۔ انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت کی سماعت کی ۔ آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ تمام مذاہب ایک ہیں لیکن عبادت کا طریقہ مختلف ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ آر ایس ایس سربراہ کو ان کی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پیش کیا جاتا لیکن دورہ کا مقصد اسلام کے بارے میں جاننا نہیں بلکہ ایک سیاسی حربہ کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ جس انداز سے اس دورہ کی تشہیر کی گئی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ملک کی تمام مساجد اور دینی مدارس اب محفوظ ہوچکے ہیں اور ان پر کوئی بری نظر نہیں ڈال پائے گا۔ مدارس کے خلاف بلڈوزر کارروائی اور سروے کا کام کیا اب روک دیا جائے گا؟ بھاگوت کے ساتھ اندریش کمار کی موجودگی بتا رہی تھی کہ آئمہ تنظیم راشٹریہ مسلم منچ پریوار کا حصہ ہے ۔ لہذا یہ ملاقات مسلم رہنماؤں سے نہیں بلکہ اپنے ہی پریوار کے افراد سے تھی ۔ اندریش کمار اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال کے ذریعہ سنگھ پریوار کی ہمنوا مسلم تنظیموں کو تیار کرنے کی مہم سے ہر کوئی واقف ہے۔ ان تنظیموں کے ذمہ دار مذہبی لبادہ اوڑھ کر اور مذہبی حلیہ بناکر بی جے پی اور آر ایس ایس کی بولی بولنے پر مامور ہیں۔ آئمہ مساجد تنظیم کے سربراہ نے حق نمک ادا کرتے ہوئے موہن بھاگوت کو راشٹرپتا یعنی بابائے قوم کے خطاب سے نوازا۔ ملک میں صرف گاندھی جی کیلئے راشٹر پتا کے لفظ کا استعمال ہوتا ہے لیکن آزادی کے 75 سال بعد ایک اور راشٹر پتا یعنی گاندھی ثانی پیدا ہوگئے۔ شائد راشٹر پتا لفظ کے استعمال میں ان سے چوک ہوگئی ، وہ دراصل بھاگوت کو ان کی تنظیم اور اس سے وابستہ افراد کے راشٹر پتا کہنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی اور موہن بھاگوت کے نظریات اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ایک نے ملک کو جوڑنے کی کوشش کی اور اپنی جان نچھاور کردی جبکہ دوسرے کو جوڑنے کے بجائے سماج کو توڑنے میں مہارت ہے۔ ظاہر ہے کہ جوڑنے والے کو ہی بابائے قوم کہیں گے نہ کہ توڑنے والے کو ۔ کاش تنظیم آئمہ مساجد کے صدر اپنے حقیقی پتا (والد) کا نام اس قدر احترام سے لیتے تو ان کی فرمانبرداری کا اظہار ہوتا۔
آر ایس ایس سربراہ کو مسلمانوں سے ملاقات کی ضرورت اچانک کیوں محسوس ہونے لگی ہے ۔ انہیں مسلم دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کی یاد کیوں ستا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں مسلم تنظیموں سے ملاقات کے بہانے گیان واپی مسجد کے حصول کی راہ ہموار کی جائے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مسجد اور مدرسہ تو صرف ایک بہانہ ہے جبکہ گیان واپی مسجد اصل نشانہ ہے۔ بابری مسجد کے معاملہ میں ہی آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کی ڈرامہ بازی کی تھی لیکن آخرکار عدالت کے ذریعہ مسجد کو حاصل کرلیا گیا ۔ اب جبکہ گیان واپی مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے، موہن بھاگوت مسلمانوں کے نام نہاد قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے ابھی سے مسلمانوں کی آنکھ میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں تاکہ عدالت سے مسجد کو حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ۔ نپور شرما کے گستاخانہ بیان کے بعد دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی اور مودی حکومت کے چہرہ پر لگی کالک کو دھونے کیلئے موہن بھاگوت میدان میں آگئے ۔ دراصل بیرونی دباؤ کے چلتے مودی حکومت نے موہن بھاگوت کو متحرک کردیا تاکہ دنیا میں یہ تاثر دیا جائے کہ مسلمانوں سے حکومت قریب ہورہی ہے۔ اگر اسلام کے بارے میں جاننا ہی تھا تو موہن بھاگوت کو دیوبند ، ندوہ اور بریلی کی دینی جامعات کا رخ کرنا چاہئے تھا۔ اسلام سے ناواقف اور بکاؤ قائدین سے ملاقات کی صورت میں ملک کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔ مسجد اور مدرسہ کے معائنہ سے قبل بھاگوت نے ٹوئیٹر پر مسلمانوں سے سوال کیا کہ وہ گاؤ کشی اور ہندوؤں کو کافر کہنے کے بارے میں وضاحت کریں۔ کیا آئمہ مساجد کے سربراہ سے بھاگوت نے یہی سوال کیا ؟ گاؤکشی کے بارے میں مسلمانوں سے پہلے بھاگوت کو گوا اور شمال مشرقی ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں سے سوال کرنا چاہئے ۔ اترپردیش میں گائے کو ’’ماتا‘‘ کا درجہ حاصل ہے تو پھر گوا میں کھلے عام بیف کی فروخت کی اجازت کیوں ہے ؟ وہاں پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی ؟ شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی گاؤکشی پر پابندی عائد کرنے کی ہمت دکھائے۔ خود موہن بھاگوت کو گوا اور شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے گاؤکشی پر عمل کرانا چاہئے ۔ بی جے پی کے قائدین خود بیف کے کاروبار میں ملوث پائے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014 ء سے قبل ہندو خطرہ میں نہیں تھے، حالانکہ مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت تھی ۔ بی جے پی کے برسر اقتدار آتے ہی ہندو خطرہ میں آچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی خود ہندوؤں کے دشمن ہیں؟ دراصل ہندوؤں کو خطرہ ظاہر کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں سہولت اور آسانی پیدا کی جارہی ہے تاکہ عالمی سطح پر بدنامی مسلمانوں کی ہو۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے نفرت کے پرچارک ٹی وی چیانلس کو پھٹکار لگائی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹی وی چیانلس کے اینکرس ملک میں نفرت پھیلانے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں، لہذا حکومت کو خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی رائے اپنی جگہ درست ہے لیکن گودی میڈیا کی اپنی مجبوریاں ہیں، انہیں حکومت کی جانب سے جو ایجنڈہ دیاگیا ہے ، اسی پر عمل پیرا ہیں۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
وفا خلوص طرفداریاں نہیں چلتیں
ہمارے ساتھ یہ مکاریاں نہیں چلتیں