پروفیسر اپوروانند
کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردوں نے جن 26 بے قصور انسانوں کا قتل کیا ان میں لیفٹننٹ ونئے نروال بھی شامل ہیں ان کی شادی 16 اپریل کو ہوئی اور اپنی نئی نویلی دلہن ہمانشی نروال کے ساتھ ہنی مون منانے کشمیر آئے لیکن اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ یہ ہنی مون ونئے کی موت کا باعث بنے گا ۔ بہرحال 26 سال میں کسی نوجوان کی موت ہوتی ہے اور انتہائی کم عمر میں اور وہ بھی شادی کے صرف 6 دنوں میں کوئی لڑکی بیوہ ہوجاتی ہے تو اس لڑکی اور اس کے میکہ والوں و سسرالی رشتہ داروں کے غم کاکیا حال ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے پیچھے دہشت گردوں کی سازش اور ان کے منصوبوں پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشت گردوں نے یہ دہشت گردانہ کارروائی ملک کے ہندووں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے ، اُنھیں مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے خاص طورپر ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی ہے ۔دہشت گردوں کا یہی مقصد تھا کہ ہندوستان میں امن و سکون تباہ و برباد ہوجائے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ ملک میں فرقہ پرست طاقتیں اپنے حقیر مفادات اور ناجائز مقاصد کی تکمیل کیلئے معاشرہ میں فرقہ پرستی کا زہر گھول رہی ہیں محب وطن ہندوستانی ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں ایک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ، وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی مسئلہ، واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کو تنگ کیا جائے ، ان کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کی جائے ۔ ایسے محب وطن عناصر میں آنجہانی لیفٹننٹ ونئے نروال کی بیوہ ہمانشی نروال بھی شامل ہیں جن کے ایک بیان نے ہندوتوا کے نفرت کا زہر گھولنے والے گروہ کو پریشان ہی نہیں خوفزدہ کرکے رکھدیا ہے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمانشی کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے اور غیرانسانی حرکتوں میں ملوث عناصر کوشرمسار کرنے کی جو طاقت تھی اس سے خوفزدہ ہندوتوا گروہ ہمانشی کی ساکھ کو ختم کرنے ان کے خلاف مہم شروع کرچکا ہے ( اب تو اس معاملہ میں قومی کمیشن برائے خواتین کومداخلت کرنی پڑی ، کمیشن نے پرزور انداز میں کہا کہ وہ پوری طرح ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہے ) فی الوقت ہمانشی کی انسانیت نوازی اور فرقہ پرستوں کی گندی سونچ ایک عام ہندو کیلئے آزمائشی صورتحال پیدا کردی ہے ۔آج یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہے یا ہمانشی کے خلاف ۔ محاذ کھولے انتہاپسند ہندو گروپ کے ساتھ کھڑا ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پہلگام میں تشدد برپا کرتے ہوئے 26 معصوم جانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے دہشت گردوں نے سوچا ہوگا کہ ان کی دہشت گردانہ کارروائی پر ہندوستان میں دو طرح کے ردعمل ہوں گے۔ ایک تو ہندوردعمل اور دوسرا مسلم ردعمل ۔ ان دہشت گردوں نے اپنی ظالمانہ حرکت کے ذریعہ ہندوؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس قسم کا تشدد مسلمانوں اور کشمیریوں کی جانب سے برپا کرہے ہیں ۔ جسے قتل کرنا ہے وہ ہندو ہی ہیں اور دہشت گردوں نے یہ کام بڑے ٹھنڈے طریقہ سے کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے ویسا ہی ہوا ، ساتھ ہی بڑے پیمانہ پر اس واقعہ کو نشر بھی کیا گیا ۔ میڈیا میں بھی یہی تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی گئی کہ مسلم قاتلوں نے پہہلگام میں سیاحت کیلئے آئے ہندوستانی ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اُتارا ۔ ان لوگوں نے یہ قتل کشمیریوں کی طرف سے کئے ، ہندوؤں کے خلاف ہندوستانیوں کے خلاف تشدد برپا کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو دہشت گرد قاتل بھی یہی چاہتے تھے لیکن جس طرح سے ابتدائی ردعمل سامنے آیا ان سے قاتلوں کے مقصد کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔ کسی مرنے والے شخص کی بیٹی ، بیوی جب یہ کہہ رہی ہے کہ تمام کشمیری مسلمانوں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا تو اس پر غور کرنا ہی پڑے گا ۔ ویسے بھی ان غمزدہ خواتین کے غیرمعمولی اور کشمیریوں کے تئیں مثبت ردعمل سے دوسرے ہندوؤں کو تعجب بھی ہوا ۔ اچھی بات یہ رہی کہ دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی کے خلاف کشمیری بڑے پیمانہ پر سڑکوں پر نکل آئے اور دہشت گردوں اور ان کی جانب سے معصوم لوگوں کے کئے گئے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔ اس واقعہ نے کشمیریوں اور مسلمانوں کو دہلاکر رکھ دیا تھا ، وہ اپنے غصہ اپنی برہمی کا اظہار بنا کسی خوف و ہچکچاہٹ کے کررہے تھے ۔
دوسری طرف ملک بھر میں مسلم مذہبی رہنماؤں ، سیاسی قائدین ، مسلم تنظیموں نے بھی برہمی ظاہر کی یہاں تک کہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کی گئی ۔ ہندوستان بھر کی مساجد میں جمعہ کے خطبہ میں آئمہ نے دہشت گردوں اور ان کی بزدلانہ حرکتوں کی مذمت کی ۔ مسلمانوں کی برہمی غم و غصہ سے یہ محسوس ہوا کہ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہوگئے اور وہ ( دہشت گرد اور اُن کے آقا ) ہندوستان کی انسانیت کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے لیکن ہم یہ بھول گئے کہ جس قسم کا ردعمل وہ پیدا کرناچاہتے تھے اس کے ردعمل کی اُمید یا توقع بی جے پی کو بھی تھی وہ پوری نہ ہوسکی ۔ دہلی اور کئی ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ جموں و کشمیر پر بھی اُن کا کنٹرول ہے ۔ بی جے پی کو بھی اس ردعمل کی اُمید تھی جو دہشت گرد چاہتے تھے بلکہ اس قسم کے ردعمل کو بھڑکانے کیلئے انھوں نے اپنی جانب سے پہل کی ۔ فوراً اس کا پہلا پوسٹر جاری ہوا جس پر لکھا تھا ’’مذہب پوچھا ذات نہیں ۔ یاد رکھیں گے ‘‘ یہ اُن ہندوؤں کے ردعمل سے بالکل مختلف تھا جو دہشت گردی سے راست متاثر ہوئے وہ تو کشمیریوں اور مسلمانوں کے جذبۂ خیرسگالی و ہمدردی ، اُن کے دکھ اور انسانیت کو یاد رکھنا چاہتے تھے ۔ اس کے برعکس بی جے پی اُنھیں کچھ اور یاد رکھنے کیلئے کہہ رہی تھی ۔
بی جے پی آخر کیا کہہ رہی تھی ؟ وہ ہندوؤں سے کہہ رہی تھی کہ ہندوؤں کو جو بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مذہب پوچھ کر مارا گیا ۔ گودی میڈیا بھی اُسی خطوط پر ہندوؤں کو اُکسانے کی کوشش کرتا رہا کہ مذہب پوچھ کرمارا گیا ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ملک میں پہلے سے ہی موجود مسلم دشمنی اور کشمیر مخالف نفرت اور راشٹریہ سوم سیوک سنگھ اور بی جے پی تنظیموں کے پروپگنڈہ کی وجہ سے کشمیریوں پر حملے شروع ہوگئے ۔ دوسری طرف حکومت گجرات نے بنگلہ دیشیوں کے نام پر مسلمانوں کو برسرعام ہراساں کرنا شروع کردیا ۔ کشمیر میں مشتبہ افراد کے مکانات مسمار کرنے کا عمل شروع ہوا اور کشمیریوں کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں شروع کردی گئیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور بی جے پی مشنری نے اس تشدد کی سزا کشمیریوں اور مسلمانوں کو دینی شروع کی ۔