ہمہ گیر معاشی استحکام ضروری

   

جس وقت سے کورونا وائرس نے پھیلنا شروع کیا ہے اس وقت سے ہی معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ بازاروں میں مندی پائی جاتی ہے ۔ تجارت اور کاروبار بری طرح سے متاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ عوام کی جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ لوگ صرف پیٹ کی آگ بجھانے میں بمشکل کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں ایک طرح سے رک سی گئی ہیں۔ حالانکہ سرکاری دعوے اس صورتحال کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں اور اسٹاک مارکٹ میں قدرے سرگرمی دکھائی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں صورتحال حکومت کی جانب سے پوری دیانتداری اور سنجیدگی سے اقدامات کئے جانے کی متقاضی ہے ۔ اسٹاک مارکٹ کا اچھال اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن جو عام تجارت ہے جسے معمول کی معاشی سرگرمیوں کا نام دیا جاتا ہے وہ اب بھی ٹھپ ہے اور اس جانب حکومت کو توجہ کرنے اور حالات کو قابو سے باہر ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرنا چاہئے ۔ چھوٹی موٹی تجارتیں پوری طرح سے بند ہوگئی ہیں۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور جہاں کام ہو رہا ہے وہ بھی بہت کم ہوگیا ہے ۔ ان کارخانوں اور فیکٹریوں میں ملازمتوں کی تعداد کو گھٹا دیا گیا ہے ۔ بے شمار لوگ اپنی نوکری اور روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ اب بھی ذریعہ معاش کی تلاش میں مصروف ہیں۔ بڑی کمپنیاں اور ادارے بھی حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک معروف خانگی ائر لائینس نے بھی اپنے دس فیصد ملازمین کی کٹوتی کردی ہے ۔ اسی طرح کئی دوسرے شعبہ جات میں بھی بڑی بڑی کمپنیوں میں ملازمتوں میں کٹوتی کردی گئی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں سنگین بحران چل رہا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ ملازمتوں سے نکالے جا رہے ہیں یا پھر کٹوتی کا سامنا کر رہے ہیں حکومت کی جانب سے مسلسل لا پرواہی کامظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ چھوٹی تجارتوں اور کارخانوں کو بحال کرنے پر حکومت کی کوئی توجہ نہںے ہے اور نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ وزیر اعظم نے 20 لاکھ کروڑ کے جس پیاکیج کا اعلان کیا تھا وہ کہا گیا ۔ اس سے کس کی مدد کی گئی ہے اور اس مدد کا کتنا فائدہ ہوا ہے ۔

حکومت کی جانب سے اکثر و بیشتر بڑی کمپنیوں اور کارپوریٹ گھرانوں کو راحت فراہم کی جاتی ہے ۔ انہیں کئی مراعات دی جاتی ہیں۔ معاشی پیکج دیا جاتا ہے ۔ اراضیات الاٹ کی جاتی ہیں۔ انہیں برقی اور پانی رعایتی قیمتوں پر دی جاتی ہے ۔ کئی برس کی چھوٹ الگ سے دی جاتی ہے ۔اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ چھوٹے کاروبار اور تجارت ہندوستانی معیشت میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ غیر منظم شعبہ کے کروڑوں مزدور ان سے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔ ان کا گھر چلتا ہے ۔ ان کے بچوں کی پرورش ہوتی ہے ۔ یہ شعبہ ایسا ہے جس کو ہمیشہ ہی سے نظرانداز کیا گیا ہے ۔ یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی تقریبا تمام حکومتوں نے اس شعبہ پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی دی جانی چاہئے تھی ۔ جیسے تیسے یہ شعبہ کام کر رہا تھا اور کروڑوں مزدوروں کے روزگار کا ذریعہ بنا ہوا تھا ۔ تاہم کورونا وائرس اور پھر اس کے بعد لاگو کئے گئے لاک ڈاون نے نہ صرف اس شعبہ کی کمر توڑ دی ہے بلکہ کروڑوں لوگوں کو عملا بیروزگار کردیا ہے ۔ حکومت کو اس شعبہ میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے صنعتی اور کارپوریٹ شعبوں کو امداد فراہم کی جاتی ہے اور راحت دی جاتی ہے اسی طرح چھوٹے تاجرین اور کمپنیوں کی مدد کی جانی چاہئے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اور انہیں مراعات فراہم کی جانی چاہئے ۔ ان سرگرمیوں کی بحالی ایک عام ہندوستانی کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے بہت زیادہ ضروری ہے ۔

حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ سارے حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ماہرین سے مشاورت کے بعد ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ حالانکہ یہ غیر منظم شعبہ ہے لیکن اس سے کروڑوں ہندوستانیوں کا روزگار وابستہ ہے ۔یہ وہ شعبہ ہے جو حکومت پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا لیکن حکومت کا بہت بڑا بوجھ خود لیتا ہے ۔اس حقیقت کو اگر ذہن نشین رکھا جاتا ہے تو حکومت کو منصوبہ سازی میں مدد مل سکتی ہے ۔ جس طرح بڑی کمپنیوں کی سرگرمیاں اہمیت کی حامل ہیں اسی طرح مائیکرو لیول کی معاشی سرگرمیوں پر بھی توجہ کرتے ہوئے ملک کی بحران کا شکار معیشت کو بحال کرنے اور اس میں نئی جان ڈالنے میں مدد مل سکتی ہے ۔