ہم خوشحال کیوں نہیں ؟

   

پی چدمبرم … سابق مرکزی وزیر داخلہ
جب آپ3 ستمبر 2023 بروز اتوار یہ کالم پڑھیں گے تب تک مجوزہ G-20 اجلاس کے بارے میں پروپگنڈہ اس قدر نقطہ عروج پر پہنچ جائے گا کہ ہندوستان رواں سال G-20 سربراہ اجلاس کی میزبانی کررہا ہے جو حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ٹھیک ہے G-20 سربراہ اجلاس کی میزبانی ہمارے لئے ایک اعزاز ہے ساتھ ہی دانشمندی کی بات ہے کہ اجلاس کے بہتر نتائج سامنے آئیں (ویسے بھی حکومت اور اس کے حامی خاص طور پر بی جے پی قائدین اور بھکت G-20 اجلاس کی سربراہی کو چاند پر پہنچ جانے کی طرح سمجھ رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں ایسا کیوں کہوں ؟
کیونکہ G-20 اجلاس ایک معمول ہے اور معمول کے مطابق مختلف ملکوں کو باری باری سے اس کی صدارت ملتی رہتی ہے اور وہ ملک G-20 اجلاس کی میزبانی کرتے رہتے ہیں۔ G-20 کے اجلاس آج کل سے نہیں بلکہ 1999 سے ہوتے آرہے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ پہلا G-20 سربراہی اجلاس امریکہ کے واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا (اس اجلاس کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی تھی کیونکہ اس وقت ساری دنیا معاشی اِنحطاط کا شکار ہوئی تھی اور عالمی معاشی بحران سے عالمی برادری پریشان ہوگئی تھی) دو G-20 اجلاس کے درمیان مختلف بیانروں تلے G-20 ملکوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے بے شمار مواقع حاصل ہوئے ، ان مواقعوں میں اقوام متحدہ G-7 ، ورلڈ اکنامک فورم ؒ آئی پی سی سی ایس سی او ، برکس ، کواڈ،QUAD ،AUICUS آسیان ، UNCTAD وغیرہ وغیرہ کے اجلاس شامل ہیں۔لطفیہ یہ ہے کہ اگر آپ انگریزی زبان کے چار پانچ حرف تہجی لکھتے ہیں تو کسی نہ کسی ادارہ کا نام بنے گا۔
جیسا کہ راقم الحروف آپ کو سطورِ بالا میں ہی بتاچکا ہے کہ G-20 کی صدارت باری باری مختلف ملکوںکے حصہ میں آتی ہے چنانچہ سال 2023 کیلئے G-20 کی صدارت ہندوستان کے حصہ میں آئی اور 2043 میں یعنی پورے بیس سال بعد G-20 کی صدارت انڈیا حاصل کرے گا۔ اگر G-20 ممالک کے معاشی حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ G-20 ملکوں میں سب سے کم فی کس اوسط آمدنی ہندوستان کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں غریبوں کی تعداد 280 ملین ہے جبکہ عالمی غربت کے انڈکس میں 123 ملکوں میں ہمارے ملک کا درجہ 107 ہے۔ اس کے باوجود 1991 سے ہندوستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مذکورہ پہلو ہندوستان کی ترقی کی رفتار کو روکنے میں ناکام رہے، صرف چند ملکوں کی قومی مجموعی پیداوار Constant Price ( حقیقی قدر یا قیمت ) میں دس برسوں کے دوران دوگنی رہی جو ذیل میں پیش کی گئی ہے : سال 1991-92 میں 25 لاکھ کروڑ روپئے، 2003-04 میں 50 لاکھ کروڑ روپئے اور 2013-14 میں 100 لاکھ کروڑ روپئے، سال 2014-15 میں شاندار شروعات کے باوجود قومی مجموعی پیداوار 2023-24 تک دوگنی نہیں ہوگی اور موقع ضائع ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ این ڈی اے حکمرانی کے دوران نمو کی اوسط شرح صرف 5.7 فیصد رہی، اس کے برعکس ڈاکٹر منموہن سنگھ کی زیر قیادت یو پی اے حکومت میں اوسط شرح نمو 7.5 فیصد رہی۔ علاوہ ازیں سال 2004 سے ہم نے 415 ملین لوگوں کو خطِ غربت سے باہر نکالا لیکن این ڈی اے کی تقریباً 10 سال حکمرانی کے باوجود ملک میں ہنوز 230 ملین لوگ غربت کے دَلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ حالات پاورٹی بار کے کم ہونے کے باوجود پائے جاتے ہیں۔ غریبوں کی حالتِ زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو فی ماہ Personal Consumption شہری علاقوں میںہے وہ 1285 روپئے اور دیہی علاقوں میں 1089 روپئے رہا۔ ہمارے پاس چاند پر پانی ہے یا نہیں ، آکسیجن پائی جاتی ہے یا نہیں، ہائیڈروجن وہاں موجود ہے یا نہیں ‘ اس کی تحقیقات کیلئے سائینسی صلاحیتیں تو موجود ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آٹھویں جماعت میں 30 فیصد طلبہ دوسری جماعت کا متن نہیں پڑھ سکتے اور 55 فیصد سیدھا سادہ ضرب و تقسیم نہیں کرسکتے۔ ہماری ترقی کی یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔
دنیا میں ہماری مقبولیت میں اضافہ ہوگا :۔
٭ اگر ہم اپنی جمہوری دعووں کو جِلادیتے ہیں اور لبرل ازم، کثرت میں وحدت ، تکثریت اور تمام مذاہب کا مساویانہ احترام کرتے ہیں۔
٭ اگر پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ مباحثوںکا اہتمام کیا جاتا ہے، ناراض عناصر کو برداشت کیا جاتا ہے اور بڑی جانچ پڑتال ،تنقیح اور مباحث کے بعد قوانین بنائے جاتے ہیں ۔
٭ تمام مقامات پر تمام سطحوں پر قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جاتی اور اگر ہم بلڈوزر انصاف، ہجومی تشدد اور نفرت پر مبنی جرائم کا خاتمہ کرتے ہیں ۔
٭ اگر ہم خودکو بازار دوست یا مارکٹ موافق بتاتے ہیں (جیسا کہ صنعت کار و تاجر دوست ہونے کی مخالفت کرنا ) اور اپنی معیشت کو کھلی و وسیع بناتے، سرمایہ کاری ، ٹکنالوجی اور مسابقت کو وسعت دیتے ہیں۔
٭ اگر ہم کلیدی ادارے جیسے عدالتیں، الیکشن کمیشن آف انڈیا، کمپرولر اینڈ آڈیٹر جنرل، حقوق انسانی کمیشن اور انفارمیشن کمیشن کو حقیقت میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دیتے اور غیر جانبداری سے کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ٭ اگر تحقیقاتی ایجنسیاں خود کو قانون نہ بتاتی اور تمام افراد، اداروں اور سیاسی جماعتوں پر حد سے زیادہ نظر نہ رکھتی، اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ صرف ہندوستانی باشندے ہی ہماری غلطیوں اور ناکامیوں کو دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جس طرح ہم دنیا کی خودمختاری، بڑے پیمانے پر نسل پرستی، خواتین پر جبر، سیاسی اور حقوق انسانی سے انکار، قبائیلوں کی جنگوں اور کارپوریٹ اجارہ داری ( صنعتی گھرانوں کی اجارہ داری ) سے انکار کو دیکھتے ہیں اور ان ناکامیوں پر آزادانہ و بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔
موجودہ تناظر میں G-20 عالمی معاشی صورتحال کو لیکر کافی فکر مند ہے، تمام معیشتیں یا ممالک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ نمو ایک ہوا کی طرح ہے جو تمام کشتیوں کو اُٹھاتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے معاشی خوشحالی نے لوگوں کو مہذب بنایا اور ان کے رویہ کو مثبت انداز میں بدل کر رکھ دیا۔ کیسے عام لوگوں کے لب و لہجہ میں تبدیلیاں لائیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر چند ملک ہی دولت مند اور خوشحال کیوں ہیں؟ میرے خیال میں ان ملکوں نے چار چیزوں پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی، سب سے پہلے ان ملکوں نے بنیادی سہولتوں پر توجہ دے کر اسی شعبہ میں سرمایہ مشغول کیا۔ دوسری سب سے اہم چیز یعنی تعلیمی شعبہ پر جی کھول کر خرچ کیا یعنی تعلیمی شعبہ کیلئے معقول بجٹ مختص کیا۔ تیسری اہم چیز جس پر ان ملکوں نے توجہ دی وہ شعبہ صحت ہے، اس شعبہ پر بھی زبردست سرمایہ لگایا گیا۔اس کے ساتھ ہی دسرے ملکوں کے ساتھ اُن ملکوں نے آزادانہ تجارت کو فروغ دیا لیکن ہندوستان نے یہ تمام چیزیں جزوی طور پر کی۔ بے شک ہم نے بنیادی سہولتوں کے شعبہ میں سرمایہ مشغول کیا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، لیکن جزوی طور پر کیا جس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ مثلاً شعبہ تعلیم پر ہم نے قومی مجموعی پیداوار کا 3 فیصد حصہ خرچ کیا۔ صحت کے شعبہ پر قومی مجموعی پیداوار کا 1.4 فیصد حصہ خرچ کیا جو بہت ہی کم ہے اور پھر تاریخی تجارتی اصلاحات کے بعد پیچھے ہٹنے والے اقدامات کے ذریعہ ہم اپنی ترقی کی راہیں خود مسدود کررہے ہیں جیسے صارفین کی قیمتوں ، اکسپورٹ ڈیوٹیز ، امپورٹ لائسنسنگ ، ملک کی خصوصی ڈیوٹیز میں مسلسل اضافوں اور آزادانہ تجارتی معاہدات میں غذائی اجناس کو شامل کرتے ہوئے ہم خود اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی ماررہے ہیں۔ ہمارے ملک کیلئے ایک اورتشویش بڑھتا تفاوت یا معاشی عدم مساوات ہے جس کا کھاد ثبوت یہ ہے کہ انکم ٹیکس ادا کرنے والے 7 کروڑ افراد کی اوسط آمدنی میں مابقی آبادی کی بہ نسبت بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ بیروزگاری کی شرح 8.5 فیصد ہے جبکہ 15 سال سے لیکر 24 سال عمر کے حامل نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 24 فیصد پائی جاتی ہے۔ ایسے میں تمام ہندوستانی کیسے دولت مند یا امیر ہوسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آبادی کا 50 فیصد نچلا حصہ قومی آمدنی کا صرف 13 فیصد کمائی کرتا ہے اور قومی دولت کے صرف 3 فیصد حصہ کا مالک ہے۔ ان حالات میں تمام ہندوستانی کیسے امیر یا دولت مند ہوسکتے ہیں ؟
pchidambaram.india@gmail.com