ہم نے ہی تم کو پیدا کیا ہے پس تم قیامت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے ۔

   

(آج غور کرو) ہم نے ہی تم کو پیدا کیا ہے پس تم قیامت کی تصدیق کیوں نہیں کرتے ۔بھلا دیکھو تو جو منی ٹپکاتے ہو ۔ (اور سچ سچ بتاؤ) کیا تم اس کو (انسان بنا کر) پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ (سورۃ الواقعہ ۵۷تا ۵۹)
بچے کی پیدائش میں انسان کا تو بس اتنا دخل ہے کہ وہ منی کا قطرہ شکم مادر میں ٹپکا دے ۔ انسان کا مادۂ تولید ایسے ان گنت نہایت باریک جرثوموں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں مادہ کے بیضہ سے ملنے اور عمل تلقیح سر انجام پانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کس کا دست قدرت ان بےشمار جرثوموں سے ایک جرثومہ کا انتخاب کرتا ہے اور پھر اس کو عورت کے بیضہ سے جا کر ملا دیتا ہے ۔ پھر رحم کے ایک تنگ وتاریک گوشہ میں اس کو قرار بخشتا ہےیہاں تک کہ اس میں زندگی کی برقی رو دوڑنے لگ جاتی ہے،پھر اس میں مختلف اعضا نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اس کے دل ودماغ میں صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ایک سمندر سمو دیا جاتا ہے۔ وہی اندھا بہرہ، بےجان جرثومہ نو ماہ کے بعد جب باہر قدم رکھتا ہے تو اس کا گول مٹول چاند ساچہرہ اور اس کے خدوخال دل کو موہنے لگتے ہیں۔ اے کفار! سچ سچ بتاؤ، اس قطرۂ آب کو یہ روپ ، یہ رنگ کس نے مرحمت فرمایا ۔ کیا اس میں بچے کے باپ کا یا اس کی ماں کا کوئی عمل دخل ہے۔ کیا تمہارے بےبس اور بےخبر خداؤں نے اس میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ کیا اندھی فطرت کے حیطۂ امکان میں یہ بات ہے۔ اگر نہیں، یقیناً نہیں تو پھر اس سے بڑی حماقت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس خداوند ذوالجلال کا انکار کیا جائے یا اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا کو شریک کیا جائے۔ پھر ذرا اس پر بھی غور کرو کہ جس خدا کی قدرت وحکمت کا یہ عالم ہےتو کیا مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کرنا اُس کے لیے مشکل ہے؟