ہم وہ راہی ہیں لئے پھرتے ہیں سر پر سورج

,

   

مودی کی قابلیت کا پول کھل گیا … مشین پر انحصار مہنگا پڑا
اعظم خاں خاندان … یوگی کے سیاسی انتقام کا شکار

رشیدالدین
ہندوستان میں کسی بھی سرکاری یا خانگی عہدہ پر تقرر کیلئے تعلیمی قابلیت اور عمر کی حد کا تعین کیا گیا ہے ۔ عہدہ کے اعتبار سے قابلیت کے علاوہ تقرر اور وظیفہ پر سبکدوشی کیلئے عمر کی حد طئے کردی گئی لیکن سیاستداں بننے کیلئے کوئی شرائط نہیں ہیں۔ جو لوگ ملک چلاتے ہیں ، اگر وہی قابلیت اور صلاحیت سے عاری رہیں تو پھر ملک اور عوام کا خدا ہی حافظ ہے۔ سرکاری اور خانگی شعبہ میں واچ مین کے تقرر کیلئے بھی تعلیمی قابلیت دیکھی جاتی ہے لیکن ملک کے چوکیدار کہلانے والے وزیراعظم کے عہدہ کیلئے قابلیت کی کوئی شرط نہیں۔ اعلیٰ عہدہ پر فائز رہتے ہوئے آئی اے ایس ، آئی پی ایس اور دوسری مرکزی و ریاستی سرویسز کے عہدیداروں کو کنٹرول کرنے والا شخص اگر صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہو تو پھر دوسروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتا ہے اور اس کا ریموٹ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کچھ یہی حال نریندر مودی کا ہے۔ جن کا انحصار ہمیشہ دوسروں پر ہوتا ہے تو کبھی نہ کبھی ان کا پول عوام کے روبرو کھل جاتا ہے ۔ ہندوستان نے گزشتہ 75 برسوں میں کئی باصلاحیت وزرائے اعظم کو دیکھا ہے جو تعلیمی اعتبار سے قابل تو تھے، ساتھ میں انتظامی اور قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ملک کو کئی ایسے وزیراعظم ملے جن کی صلاحیتوں کا دنیا نے اعتراف کیا اور ہندوستان کے گوہر نایاب ثابت ہوئے۔ دستور ہند نے سیاست میں حصہ لینے اور کونسلرس سے لے کر وزیراعظم کے عہدہ تک قابلیت کی کوئی شرط نہیں رکھی، جس کے نتیجہ میں ناخواندہ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد اسمبلی اور پارلیمنٹ ہی نہیں وزارت میں دکھائی دینے لگے۔ قابل باصلاحیت افراد کے لئے عوامی خدمت کی راہ ہموار کرنے عہدہ کے اعتبار سے قابلیت کے تعین اور سبکدوشی کی عمر مقرر کرنے کا طویل عرصہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو الیکشن سے دور رکھنے کی باتیں ہوتی جاتی ہیں لیکن سنگین جرائم میں ملوث افراد جیل میں رہتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ عمر کی حد کا تعین نہ ہونے سے وہیل چیر قائدین بھی انتخابات میں نظر آتے ہیں۔ ناخواندہ افراد ملک و قوم کے لئے کس قدر نقصان دہ ہوسکتے ہیں ، اس بارے میں سمجھنے کیلئے سابق شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کا یہ جملہ کافی ہے کہ ’’جاہل شخص ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘‘۔ قابلیت اور صلاحیت کے بارے میں تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے دانشور طبقہ میں ان دنوں یہ بحث جاری ہے کہ اہم عہدوں پر فائز افراد کی اہلیت کے اصول ضروری ہیں یا نہیں۔ مرکز میں گزشتہ 7 برسوں سے حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر ہر ذی شعور فرد یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کوئی قابل وزیراعظم ہوتا تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اچھے دن کے وعدہ کے ساتھ تشکیل پانے والی حکومت کے 7 برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں رہا جسے لوگ اچھے دن کہہ سکیں۔ روز کی نئی مصیبتوں سے بیزار ہوکر عوام حکومت سے 2014 ء سے قبل کے برے دن واپس لوٹانے کی مانگ کر رہے ہیں۔ ملک کی باگ ڈور جس کے ہاتھ میں ہو اگر وہی قابلیت سے محروم ہو تو وہ دوسروں کا محتاج بن جاتا ہے ۔ عوام سے مخاطب ہونے کیلئے بھی اسے ڈائیلاگ رائیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ قابلیت کے بغیر دوسروں کے سہارے خطابت کا ڈھونس جمانے کی کوشش دیرپا ثابت نہیں ہوتی اور دوران تقریر تکنیکی خرابی پیدا ہوجائے تو دوسروں کا منہ تکنے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے سواء کوئی چارہ نہیں رہتا۔ نریندر مودی ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جن کی تعلیمی قابلیت کا کوئی دستاویزی اور سند کے ساتھ ثبوت نہیں ہے۔ قومی اور بین الاقوامی کوئی ایونٹ ہوں یا پھر الیکشن ریالیاں ، مودی نے اپنی تقریری صلاحیتوں کے جوہر خوب دکھائے اور اکثر لوگ انہیں عوام کے دلوں کو چھونے والا مقرر تسلیم کرنے لگے۔ لوہے پر سونے کا پانی لگانے سے وہ سونا نہیں بن جاتا بلکہ ایک دن اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اسی طرح نریندر مودی بھی بے نقاب ہوگئے ۔ یہ معاملہ اگر اندرون ملک کسی ایونٹ کا ہوتا تو پھر بھی گھر کی بات گھر میں رہ جاتی لیکن ایک عالمی سطح کے ایونٹ میں ذرا سی تکنیکی خرابی نے نریندر مودی کی قابلیت دنیا کے سامنے کھول دی۔ ہر کسی کو پتہ چل گیا کہ مودی کی فن تقریر کا راز کیا ہے۔ تقریر لکھنے والا کوئی اور جبکہ مودی کا کام صرف تحریر پڑھ دینا ہے۔ ٹیلی پرامپٹر مشین کے ذریعہ تحریر کسی بھی مقرر کے سامنے اسکرین پر دکھائی دیتی ہے لیکن سننے والا یہ تصور کرتا ہے جیسے مودی اپنے طور پر الفاظ ادا کر رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے ورچول خطاب کے دوران تکنیکی خرابی سے ٹیلی پرامپٹر خراب ہوگیا۔ پھر کیا تھا مودی کے چہرہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور انہوں نے تقریر کو روک دیا۔ یوں لگا ٹیلی پرامپٹر بند نہیں ہوا بلکہ مودی کے دماغ کی بتی بجھ گئی ۔ وہ اس لئے کہ سامنے اسکریننگ پر کچھ نہیں تھا ۔ اس طرح کے مواقع قائدین کے امتحان کے ہوتے ہیں ۔ اگر قابلیت اور صلاحیت ہو تو مقرر موضوع پر اظہار کو جاری رکھ سکتا ہے لیکن یہاں تو نیوز ریڈر کی طرح تحریر کو سمجھے بغیر پڑھ دینا ہے۔ اہم شخصیتوں کی تقاریر سے قبل تقریر تیار کرنے والے عہدیدار موضوع کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں اور مقرر کو مواد سے واقف کرایا جاتا ہے ۔ کوئی قابل شخص ہو تو وہ تحریر دیکھے بغیر بھی موضوع پر اظہار خیال کرسکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد عوام جان گئے کہ ’’من کی بات‘‘ بھی مودی کے من کی نہیں بلکہ کسی مکالمہ نگار کے قلم کا کمال ہے۔ جب اتنا سب ہوچکا تو درپردہ تحریر نگار کو عوام کے روبرو کیا جائے تاکہ لوگ جان سکے کہ مودی کی زبان پر آخر کس کے جملے ہیں۔ آدمی جب تحریر پڑھنے کا عادی ہوجائے اور وہ بھی قابلیت کے بغیر تو اس سے کئی بھیانک غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ یوں تو تحریر پڑھنے کے دوران وزیراعظم سے کئی بار غلطی سرزد ہوئی لیکن گزشتہ دنوں برہما کماری تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم خود اپنی حکومت کی اسکیم کا نام صحیح طورپر ادا نہ کرسکے۔ اسکیم کا نام کچھ اس طرح ادا کیا کہ لوگ بے ساختہ ہنس پڑے۔ نریندر مودی نے ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ اسکیم کو ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پٹاؤ‘‘ ادا کیا۔
اترپردیش انتخابات کے قریب آتے ہی دل بدلو سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوچکی ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ وزارت کے بعض وزراء اور بی جے پی ارکان اسمبلی کی سماج وادی پارٹی میں شمولیت سے پریشان بی جے پی قیادت نے اکھلیش یادو کو خود ان کے گھر سے کرارا جواب دیا ہے۔ ملائم سنگھ یادو کی بہو اور اکھلیش کی بھاوج نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں اکھلیش خاندان کے بعض دیگر افراد پر بھی بی جے پی کی نظر ہے۔ بی جے پی میں شمولیت کے بعد بہو نے اپنے خسر ملائم سنگھ یادو سے آشیرواد حاصل کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کو لاجواب کردیا۔ دل بدلو کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ کسی کے پارٹی چھوڑ دینے سے انتخابات پر کس حد تک اثر پڑے گا اس کا اندازہ نتائج کے بعد ہی ہوپائے گا لیکن عام طور پر پارٹی میں غیر محفوظ تصور کرنے والے افراد دوسری پارٹیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی دوران اترپردیش میں مسلم چہرہ کے طور پر اپنی شناخت رکھنے والے اعظم خاں کے خاندان کی مشکلات میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ اعظم خاں کے فرزند 23 ماہ قید و بند کی صعوبتوں کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ ان کی والدہ تقریباً 10 ماہ تک جیل میں رہیں۔ اعظم خاں کے خلاف 70 سے زائد مقدمات ہیں جبکہ فرزند پر تقریباً 50 مقدمات درج کئے گئے ۔ مقدمات کی نوعیت کے بارے میں اگر کوئی سنے گا تو یقیناً ہنس پڑے گا ۔ رات دیر گئے ہر دو منٹ کے وقفہ سے ایک نیا ایف آئی آر درج کیا گیا ۔ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے اعظم خاں خاندان کے خلاف جس انداز میں انتقامی رویہ اختیار کیا ہے ، وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ 9 مرتبہ رکن اسمبلی ، دو مرتبہ پارلیمنٹ کے رکن اور اسمبلی میں قائد اپوزیشن جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے سیاستداں کے خلاف مرغی ، بکری ، بھینس ، کتاب ، مٹی ، شراب کی بوتل اور زیورات کے سرقہ کے متواتر مقدمات درج کئے گئے ۔ اعظم خاں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے یونیورسٹی قائم کی تھی۔ چونکہ یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنا تھا تو ظاہر ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو یہ بات پسند کیسے آئے گی ۔ سیاسی طور پر اعظم خاں فیملی کو تباہ کرنے کے مقصد سے ان پر فرضی مقدمات درج کئے گئے ۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ اعظم خاں اور ان کے فرزند نے مرغی ، بکری ، بھینس ، مٹی ، شراب اور زیورات کی چوری کی ہو۔ مقدمات کیلئے جب کوئی الزام نہ رہا تو اس طرح کے بے بنیاد اور مضحکہ خیز مقدمات درج کئے گئے۔ عدالت میں سرقہ کا ثبوت پیش کرنے کیلئے کیا جانوروں کو پیش کیا جائے گا ؟ دراصل اعظم خاں اترپردیش ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کو متحد کرنے کی مہم پر تھے ۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی کے خلاف ان کی حق گوئی برداشت نہیں ہوئی اور انتہائی گھٹیا انداز میں سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد عبداللہ اعظم نے جیل میں مظالم اور اذیتوں کی جو داستاں بیان کی ہے وہ یوگی ادتیہ ناتھ اور بی جے پی کے لئے مہنگی ثابت ہوگی۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم وہ راہی ہیں لئے پھرتے ہیں سر پر سورج
ہم کبھی پیڑوں سے سایہ نہیں مانگا کرتے