ہندوتوا ہورہا ہے بدنام

   

راج موہن گاندھی

تبدیلیاں بہت دُور ہوسکتی ہیں لیکن اس کی خوشبو ہمیں محسوس ہوسکتی ہے۔ میں پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات یا ان کے امکانی نتائج کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ صرف ہندوستان میں ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں اور مساوات کی بات کررہا ہوں۔ موجودہ حکومت نے جو ویژن دیا ہے یا اسے آگے بڑھایا ہے یا پھر ہم پر وہ ویژن تھوپا گیا ہے، وہ ہمارے حصول مساوات سے بالکل متضاد ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ہم نے دیکھا کہ ہندوؤں کی اکثریت فخریہ انداز میں روشن ماضی کی شان و شوکت، آن و بان کی طرف لوٹنے کا دعویٰ کررہی تھی، لیکن فی الوقت محسوس ہوتا ہے کہ وہ تھک گئی ہے، جھک گئی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اقلیتوں کی صورتحال کو دیکھا جائے تو وہی زیادہ تھکے ماندے جھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، اقلیتوں کے بارے میں یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ ان لوگوں نے چند صدیاں قبل اکثریت پر ظلم و جبر کی انتہا کردی تھی، انہیں ذلیل و رسوا کیا گیا تھا، یہ ایسا پروپگنڈہ ہے جسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا، اگر قریب کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سب سے خوفناک مرحلہ ملک کی تقسیم کا تھا۔ 1947ء میں ملک کی تقسیم عمل میں آئی اور سب سے زیادہ تباہی دونوں طرف کے پنجاب کو برداشت کرنا پڑا۔ ہندوستانی پنجاب ہو یا سرحد پار کا پنجاب لوگوں کو ناقابل بیان المیہ سے گزرنا پڑا۔ 31 جنوری کو ہمارے پنجاب میں یہ سوال پوچھا گیا کہ آیا ایک ہندو چیف منسٹر پنجاب بن سکتا ہے، جس کے جواب میں اکالی لیڈر سکھبیر سنگھ بادل نے جواب دیا: ’’کوئی بھی چیف منسٹر بن سکتا ہے، لیکن اسے لائق یا اہل ہونا چاہئے اور اس میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اَتم موجود ہوں۔ جہاں تک مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کا سوال ہے، سب سے زیادہ پروپگنڈہ مذہبی رہنماؤں کے خلاف کیا گیا اور انہیں اکثریتی ہندوؤں پر ظلم و جبر کا ذمہ دار قرار دیا گیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بہرحال ہندو چیف منسٹر کے سوال پر سکھبیر بادل نے جو کچھ بھی کہا واضح طور پر کہا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق کیوں کیا جانا چاہئے، کیا یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مسلمان پنجاب کا چیف منسٹر نہیں بن سکتا؟ سکھبیر سنگھ بادل کے بیان یا ان کے الفاظ سے ایک غیرمتوقع تصویر اُبھرتی ہے۔ اگر امکانی مستقبل کے بارے میں صرف نظریہ تک محدود رہا جائے تب بھی ہندوستانی پنجاب کے عہدۂ چیف منسٹری پر ایک مسلمان کا فائز ہونا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
حالیہ عرصہ کے دوران ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوا۔ بہت سے لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھا اور کافی پسند بھی کیا جس میں دو ضعیف مسلم بھائیوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ بھائی بچپن میں ہی تقسیم ملک کے وقت 1947ء میں بچھڑ گئے تھے۔ ایک ہندوستانی پنجاب میں رہ گیا اور دوسرا بھائی پاکستانی پنجاب میں مقیم ہوگیا۔ اب دونوں بھائیوں کی ملاقات ہوئی اور اس کا کریڈٹ ویزا سے پاک کرتار پور راہداری کو جاتا ہے۔ یہ ویڈیو پہلی ملاقات ’’پنجابی لہر‘‘ نامی ایک یوٹیوب چیانل نے پوسٹ کی تھی۔ یہ ایسا یوٹیوب چیانل ہے جو ہند۔ پاک کے بکھرے ہوئے خاندانوں کو ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی چیانل نے 84 سالہ صادق خان اور حبیب یا سکہ خان کو دوبارہ ملایا ہے۔ واضح رہے کہ صادق خاں پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بھائی حبیب خاں ہندوستانی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ پاکستانی شہری ناصر ڈھلون ’’پنجابی لہر‘‘ چلاتے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان کا چیانل اپنے مقصد کے باعث لاکھوں سبسکرائبرس کیلئے کشش کا باعث بنا ہوا ہے اور ملک کی تقسیم نے مشرقی اور مغربی پنجاب کے لوگوں کے درمیان جو خلیج پیدا کی ہے، اس خلیج کو پاٹنا ’’پنجابی لہر‘‘ کا مقصد ہے۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ یہ سوچنے والا میں واحد شخص نہیں کہ اس طرح کے عمل یا بچھڑے لوگوں کو ملانے سے گرونانک یقینا خوش ہوئے ہیں۔ آپ کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران کسانوں نے جس انداز میں احتجاجی مظاہرے کئے اور اپنے مطالبات کو منوایا۔ اس سے کسانوں کے درمیان اتحاد کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی کسانوں نے حکومت کے متعارف کروائے گئے زرعی قوانین کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور کئی مصیبتوں سے انہیں گذرنا پڑا جس کا درد دنیا بھر کے کسانوں نے محسوس کیا۔ آج کسانوں کے باعث ہی یہ حال ہوگیا ہے کہ اترپردیش جیسی ریاست میں لوگ بی جے پی سے ناراض ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغربی یوپی میں جاٹوں کو نفرت کی گولی دینے کی کوشش کی گئی، لیکن جاٹوں نے اس گولی کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ تبدیلی بی جے پی کیلئے بری خبر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب ملک میں ہندوتوا خود کئی مشکلات سے گذر رہا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران آپ نے یہ بھی دیکھا کہ خودساختہ ’’دھرم سنسد‘‘ چاہے وہ ہری دوار میں ہو یا کہیں اور ، زہریلا پیغام پھیلانے کا باعث بنی۔ دونوں مقامات پر منعقد کی گئی دھرم سنسدوں میں قتل عام کی باتیں کی گئیں اور ہندوستانی اقلیتوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر زور دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کو پھر ایک مرتبہ قتل کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی۔ انہیں گندی گالیاں دی گئیں،اس طرح کی اشتعال انگیزی کرنے والوں کا مقصد یہی تھا کہ آج کے دور میں بھی جو کوئی مہاتما گاندھی بننے کی کوشش کرے، اسے قتل کردیا جائے، لیکن ہندوستانیوں کی اکثریت نے دھرم سنسد میں کی گئی بکواس کی مذمت کی، لیکن دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی نے خود ساختہ دھرم سنسد کے منتظمین کے تعلق سے ایک لفظ بھی نہیں کہا حالانکہ میں نے اپنے گزشتہ کے کالم میں یہ بات کہی تھی کہ دھرم سنسد میں جن لوگوں نے اشتعال انگیز باتیں کیں وہ مودی کے دشمن ہیں کیونکہ اُن کی حرکتوں اور مودی کی خاموشی کے نتیجہ میں عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ متاثر ہورہی ہے اور اس خیال پر میں ہنوز قائم ہوں، تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مودی نے ہری دوار سے پھیلائے گئے فرقہ پرستی کے زہر کی مذمت کرنے سے صاف طور پر انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی امیج بھی خراب ہوگئی۔ ساتھ ہی ان کی خاموشی نے ہندوستانیوں کو یہ یاد دلایا کہ اپنے قبیل کے لوگوں کو قبول کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کہیں غائب ہوجائیں ۔ ہری دوار میں نفرت انگیز تقاریر اور اس پر نئی دہلی کی خاموشی دراصل ہندوستانی جمہوریت کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
امریکی کانگریس کے اہم ترین ارکان نے ہمارے یوم جمہوریہ کے موقع پر بریفنگ کے دوران ہندوستانی جمہوریت کو لاحق خطرات کے بارے میں برسرعام تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی سینیٹر این مارکے نے جو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، کہا کہ ان کا ملک ہندوستان کی جمہوریت کو کھوکھلا کی جانے والی کوششوں کے خلاف بولتا رہے گا کیونکہ امریکہ اور ہندوستان دنیا کی دو بڑی جمہوریتیں ہیں۔ ان کے خیال میں ہندوستان میں حکومت اپنے تمام لوگوں کے تحفظ نہیں کرپا رہی ہے۔ ایوان نمائندگان کے کمیشن برائے حقوق انسانی کے صدرنشین و کانگریس کے رکن جن ماک گون کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان کو لے کر بے چین ہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی حکومت نے شہریت کو مذہبی شناخت سے مربوط کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے، اس پر انہیں بہت زیادہ تشویش ہے۔دوسری جانب انڈیا گیٹ کے قریب سبھاش چندر بوس کا ایک ہولو گرام نصب کئے جانے پر بھی مختلف ردعمل سامنے آرہا ہے۔ مودی نے وعدہ کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں ہولوگرام قائم کیا گیا ہے، نیتاجی سبھاش چندر بوس کا ایک شاندار مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ہندوتوا طاقتوں نے جس طرح سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمے نصب کئے ہیں، اسی طرح نیتاجی سبھاش چندر بوس کو بھی اپنے مطلب کیلئے مجسمہ نصب کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرنے والے ہیں۔ آپ کو بتا دوں کہ مودی حکومت صرف اپنے مقصد کیلئے نیتاجی کا مجسمہ نصب کرنے کی بات کرتی ہے لیکن وہ بھول گئی ہے کہ نیتاجی کو اُردو ناموں سے کتنا پیار تھا۔ انہوں نے آزاد ہند فوج میں مسلم آفیسروں کے بیانڈ سے کافی قربت حاصل کی تھی۔ نیتاجی نے تمام ہندوستانیوں کیلئے مساوات، دوستی و احترام کا پیغام دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوتوا کبھی بھی سبھاش چندر بوس کی تعلیمات کو ہضم نہیں کرسکتی۔ اگر ہم نیتاجی کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہندوتوا کو مسترد کررہے ہیں۔ جہاں تک امبیڈکر اور پٹیل کا ہندو راشٹر سے متعلق موقف ہے ، امبیڈکر نے اپنی کتاب ’’تھاٹ آف پاکستان‘‘ میں لکھا کہ اگر ہندو راج حقیقت میں قائم ہوجائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اس ملک کیلئے ایک بڑی آفت ہوگی، بڑا المیہ ہوگا۔ دوسری طرف ڈسمبر 1948ء میں جئے پور جیسے شہر میں سردار پٹیل نے اعلان کیا تھا کہ کانگریس اور حکومت جس کے وہ نائب وزیراعظم ہیں، نے ہندوستان کو ایک حقیقی سکیولر ریاست بنانے کا عزم مصمم کیا ہے۔