ہندوستان، چین۔ امریکہ تنازعہ میں کیا کرے گا؟

   

جیوتی ملہوترہ
ہندوستان نے 11 مئی کو پوکھران میں کامیاب نیوکلیر تجربہ کیا تھا لیکن اس مرتبہ ساری دنیا بالخصوص ہندوستان میں جاری کورونا وائرس کی وباء کے باعث جوہری تجربات کی 22 ویں سالگرہ نہیں منائی گئی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اُس جانب کوئی توجہ بھی نہیں دی، لیکن چند لوگ نے جن کے ذہنوں میں اہم واقعات کی یادیں ہنوز تروتازہ ہیں 1998 کے اس موسم گرما کی طرف لوٹ کر دیکھتے ہیں جب بل کلنٹن انتظامیہ نے نیویارک ٹائمس کو ایک مکتوب کا افشاء کیا وہ مکتوب دراصل اُس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لکھا تھا جس میں انہوں نے امریکی صدر کو بتایا تھا کہ ہندوستان نے جوہری تجربات کیوں کئے تھے۔

واجپائی نے پرزور انداز میں لکھا تھا ’’شمال میں ہندوستان کے اپنے پڑوسی ملک سے تعلقات انتہائی تلخ ہیں اور اس کے باعث ہندوستان پوکھران میں نیوکلیر تجربات کرنے پر مجبور ہوا۔ واجپائی کے اُس مکتوب سے مغربی دنیا میں کئی لوگ حیرت زدہ رہ گئے حالانکہ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان نے پاکستان سے درپیش خطرہ اور اس کی سرگرمیوں سے بے چین ہوکر جوہری تجربات کئے تھے۔

لیکن اٹل بہاری واجپائی اور حکمت عملے طے کرنے والی ان کے مفکرین کی ٹیم یہ اچھی طرح جان چکے تھے کہ پڑوسی کمیونسٹ ملک سے غیر مساویانہ تعلقات کے بارے میں ازسر نو حکمت عملی کیسے طے کی جائے۔ اس معاملہ میں ان کے لئے 1999 میں کارگل پر قبضہ کی برخواستگی اور اس کے ایک سال بعد انڈین ایرلائنز کے طیارہ 814 کے ہائی جیاکنگ جیسے سنگین مسئلہ سے کامیابی سے نمٹنا بڑا کام آیا۔ واجپائی اور ان کی ٹیم نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان اور کمیونسٹ ملک چین کے مابین تعلقات سے مغربی دنیا کو بہتر انداز میں واقف کروایا۔ ان کے مکتوب سے اندازہ ہوا کہ ہندوستان کے لئے پاکستان سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ چین ہے۔

ایک اور بات اہم ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات تو تلخ ہیں لیکن دونوں ملکوں نے انتہائی نازک صورتحال میں بھی ان تلخیوں کو بڑے پیمانے پر آگے بڑھنے نہیں دیا۔ ڈوکلم اس کی مثال ہے۔ بہرحال ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات میں تلخیوں کے ساتھ ساتھ معاشی لحاظ سے بھی کافی فرق پایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اقتصادی عشاریہ آپ کو یہ اچھی طرح بتائے گا کہ چین کی قومی مجموعی پیداوار 13.6 کھرب ڈالرس (2018) میں تھی اس کے برعکس ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار بہت کم 2.7 کھرب ڈالرس رہی۔ ان حالات میں کیا ہندوستان چین اور امریکہ کے درمیان جاری تنازعہ میں امریکہ کی تائید و حمایت کرے گا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہندوستان امریکہ کی تائید نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کورونا وائرس کو لیکر تلخیاں بڑھ گئی ہیں۔ الزامات وجوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس چینی شہر ووہان کی ایک لیباریٹری میں تیار کیا گیا اور اس لیباریٹری پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے۔ امریکہ یہ بھی کہتا رہا ہے کہ کورونا وائرس ووہان کے اس مارکٹ سے پھیلا ہے جہاں مختلف جانوروں اور حشرات الارض کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے جن میں چوہے اور چمکاڈر بھی شامل ہیں۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں دنیا سے حقائق چھپانے کے معاملہ میں چین کو سزا دی جانی چاہئے۔
سادہ سی وجہ ہے کہ ہندوستان چین اور امریکہ کے تنازعہ میں امریکہ کی تائید و حمایت نہیں کرے گا کیونکہ ہندوستان کو چین کی بہت ضرورت ہے حالانکہ آر ایس ایس کے اقتصادی ونگ سودیشی جاگرن منچ اس بات پر مصر ہیکہ ہندوستان کو چین پر انحصار نہیں کرنا چاہئے یا کم سے کم کرنا چاہئے جبکہ چین سے منتقل ہونے والی فرمس کو راغب کرنے کی کوششوں کے باوجود ہندوستان، امریکہ کی تائید نہیں کرے گا۔ اس سلسلہ میں آپ کو بتادیں کہ سردست ہندوستان اور چین کے درمیان باہمی تجارتی خسارہ 53.57 ارب ڈالرس کا ہے جو ہمارے ملک کے قوم پرست لیڈروں بشمول وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکی تائید و حمایت سے روکنے کے لئے کافی ہے۔
جس وقت چینی سپاہی حال ہی میں شمالی سکم کے ناکولا گھاٹی (اسے ناتھولا گھاٹی نہ سمجھا جائے) کے ان بلند و بالا پہاڑوں کے پار آگئے یا پھر ایک ہفتہ قبل لداخ کے پیالگانگ میں گھس کر ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی اگر ان تمام واقعات پر غور کیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین ایکحویل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر اس طرح کا جارحانہ رویہ کیوں اختیار کررہا ہے؟ جہاں تک ایل اے سی کا سوال ہے 2500 کیلو میٹر سے زائد طویل یہ لائن ہندوستان اور چین کو علیحدہ کرتی ہے۔

چین نے ایک معاملہ میں کامیاب مظاہرہ کیا اور وہ یہ ہے کہ اس کی افواج اونچی پہاڑی علاقوں میں سخت حالات کے باوجود مہم جووں کی طرح پہنچ جاتے ہیں وہ بلندی اور فاصلوں کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ حالیہ واقعات نے 2017 کے ڈوکلم کشمکش کی یادیں تازہ کردیتی ہیں جو زائد از 73 دن تک جاری رہی اور امریکہ کے بشمول دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس تعطل اور کشمکش کو دونوں ملکوں نے بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں سلجھایا اور اپنی فورس کو ڈوکلام سے واپس بلالیا۔ اس معاملہ میں دونوں میں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان نے اس تنازعہ کا انتہائی پرسکون انداز میں مقابلہ کیا جو خود ایک فتح ہے۔
ہندوستان اور چین میں سرحدی تنازعہ کوئی نیا تنازعہ نہیں ہے۔ چند برسوں سے اس میں شدت آئی ہے۔ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے ۔ 2 کے آخری برسوں میں بھی ایسا ہوا ہے اور دونوں ملکوں نے معاہدات کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کئے ہیں۔ چینی سپاہی سکم اور لداغ میں ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوکر چہل قدمی کررہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ چینی علاقے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ کافی برہم ہیں اور لڑائی کے لئے بے چین ہیں۔