ہندوستانیوں کیلئے آپس میں بات کرنا مشکل ہوگیا

   

برکھا دت
ہندوستان کی جمہوریت کے تعلق سے موجودہ طور پر کئی باتیں غیراطمینان بخش اور غیرواجبی ہیں، لیکن اس حقیقت سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ ہم تنگ نظری پر مبنی القاب کو استعمال کئے بغیر ایک دوسرے سے بات کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ کچھ انتشار سیاست کی وجہ سے ہے۔ مثال کے طور پر تقسیم پسند قانون شہریت نے خاندانوں میں جھگڑے پیدا کردیئے ہیں، مختلف نسل کے درمیان تنازعات چھیڑ دیئے اور فیملی واٹس ایپ گروپوں میں خلش پیدا ہوئی ہے۔ کالج المنی کے پیج جن میں میرے قدیم ادارہ سینٹ اسٹیفنس کا بالعموم صاف ستھرا اور شوروغل سے عاری فیس بک فورم شامل ہے، وہاں تیز و تند مباحث ہونے لگتے ہیں جو اکثر توتو، میں میں اور ایک دوسرے کے خلاف غلط الفاظ کے استعمال پر ختم ہوتے ہیں۔ میں ہنسا کرتی تھی جب امریکا میں مقیم میرے قریبی دوست مجھے بتاتے تھے کہ وہ ایسے پڑوس میں رہنا پسند نہیں کرتے جہاں کے لوگوں نے ان سے مختلف پارٹی کے حق میں ووٹ استعمال کیا ہے۔ بلاشبہ، حقوق نسواں اور تکثیریت کی حامی کی حیثیت سے میں واقف ہوں کہ شخصی بات ہمیشہ سیاسی ہوتی ہے؛ لیکن مجھے عصری تاریخ میں اور کوئی موقع یاد نہیں جب اس قدر تعداد میں ہندوستانی شہری متعدد دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے قاصر ہیں۔ عوام میں گفتگو کا رجحان گھٹ جانا جزوی طور پر ہمارے میڈیا کے سبب ہے، ٹیلی ویژن اور آن لائن دونوں۔ یہ شرمناک بات ہے کہ اصل دھارے کے چیانلز اور شیخی بگھارنے والے اینکرز اور نیوز پریزنٹرز بڑی آسانی سے ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘ جیسے فقرے ہر اُس فرد کیلئے استعمال کرنے لگے ہیں جو غالب خیال و رجحان سے اتفاق نہ کرے۔
مختلف افراد و شخصیتوں کو آن لائن تنگ کرنے اور نفرت پر مبنی ہیاش ٹیاگ استعمال کرنے کا عام رجحان ہوگیا ہے۔ ٹیلی ویژن میڈیا کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم کس طرح خطرناک رجحان کی طرف چل پڑے ہیں۔ اس کے برعکس معاملہ امریکا میں ہے جہاں کے ادارے زیادہ منصفانہ ہیں۔ اسٹیفن کالبرٹ ہر رات امریکی صدر کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہیں لیکن دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے فاکس نیوز اور سنٹرسٹ سی این این نے مل کر یکساں موقف اختیار کیا جب جم اکاسٹا پر وائٹ ہاؤس نے رپورٹنگ کیلئے امتناع عائد کردیا تھا۔ ایسا انڈین نیوز انڈسٹری میں آج کبھی نہیں ہوگا۔
گفتگو اور بات چیت میں اصل دھارے والے اور نئے میڈیا کی سازباز آن لائن ہجوموں کا موجب بنی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ قانون شہریت یا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) بحران کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؛ یہ حقیقت کہ یوگیندر یادو اور دیگر کو جے این یو کے باب الداخلہ پر ’’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘‘ کے نعروں کا سامنا ہوا، ثبوت ہے (اگر ہمیں ہنوز درکار ہو تو) کہ قول و فعل کو معمولی فرق جدا کرتا ہے۔ دایاں بازو بلاشبہ دیگر گروپوں کے مقابل بہتر طور پر منظم ہے جس کے پاس زیادہ وسائل اور جارحیت ہے، چاہے ٹیلی ویژن ہو یا ٹوئٹر۔ لیکن پریشان کن امر یہ ہے کہ رواداری کے اُصول کو غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے نہایت بے اطمینانی ہے جس طرح آسانی سے تمام نظریاتی وابستگیاں پراڈکٹس اور افراد کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔ دپیکا پڈوکون کو اس کا سامنا ہوا جب انھوں نے جے این یو کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ اظہار یگانگت کیا، جو بے رحمانہ تشدد کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن میں نے لبرل لوگوں میں پرجوش مباحث بھی سنے ہیں کہ بعض گروپوں یا انفرادی لوگوں کے بنائے گئے پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جائے، جو موجودہ حکومت کی تائید کرتے ہیں یا اسے فنڈ دیتے ہیں۔ یہ اپنے پیر پر کلہاڑی مار لینے والی صورتحال ہے۔ آپ ان تمام کو نہیں بدل سکتے جن کی مخالفت کا آپ دعویٰ کرتے ہیں۔ ہاں، بائیکاٹ کرنا گاندھیائی طریقہ رہا اور بدستور رہے گا اور عوام کو متحرک کرنے کا اچھا ذریعہ ثابت ہوگا۔ لیکن صرف تب ہی جب بالکلیہ انوکھے معاملوں میں اسے استعمال کیا جائے اور صریح ناانصافیوں کی صورت میں اس کا استعمال کیا جائے، نہ کہ محض اظہار رائے یا سیاسی ترجیح کو ظاہر کرنے کیلئے بائیکاٹ کی عادت ڈال لی جائے۔ ورنہ ہم بھی ہجوم بن جائیں گے جس سے ہم لڑتے ہیں۔
کچھ اسی کا واقعہ حال میں پیش آیا جب تاریخ داں رامچندر گوہا کو راہول گاندھی اور کانگریس کے بارے میں ان کے خیالات پر شدت سے تنگ کیا گیا۔ گوہا جو بالعموم اپنی سخت دانشورانہ انفرادیت کیلئے جانے اور احترام کئے جاتے ہیں، انھوں نے اپنا موقف واضح کرنے کی بہت کوشش کی۔ جہاں گوہا کو نریندر مودی حکومت کا سخت ناقد پایا گیا ہے، وہیں انھوں نے کانگریس کی غیرمؤثر قیادت اور اس کے ساتھ اختلاف رائے کے بارے میں اظہار سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ واجبی جمہوریت میں یہی رجحان ہونا چاہئے۔ لیکن گوہا کو خوب برا بھلا کہا گیا یہاں تک کہ فاشسٹ نظریہ پھیلانے میں مدد کرنے والا کہا گیا۔
اس غیرضروری تنازعہ کے اُبھرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری جمہوریت کس قدر نازک موڑ پر آگئی ہے، جہاں ہر کسی کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سوچ و فکر پر کنٹرول کا عصری رجحان ہے۔ presstitute اور اینٹی نیشنل جیسے فقرے پہلے ہی اسے کافی نقصان پہنچا چکے ہیں جو کبھی صحت مند اور دلائل پر مبنی عوام بحث ہوا کرتی تھی۔ لیکن اگر کوئی ملک آپس میں بات چیت اور گفتگو کا رجحان کھو دے تو اس سے صرف اکثریتی عنصر کا غلبہ بڑھتا ہے۔ دائیں بازو کے ٹرالز منظم گالی گلوج میں بلاشبہ کلیدی مرتکبین رہے ہیں، تذلیل کی مہم چلانا، اہانت کرنا اور حتیٰ کہ جنسی تشدد یہ سب مذموم حرکتیں کی جارہی ہیں۔ لیکن اگر اس کے جواب میں کسی قدر کم شدت سے اسی طرح کی مہم چلائی جائے تو یہ قوم کیلئے ٹھیک نہیں۔ علاوہ ازیں شخصیت اور سوچ و فکر کا بکھراؤ اُن کیلئے موزوں ہے جو یہی چاہتے ہیں۔ اور آخرکار ہجوم کی جیت ہوتی ہے۔