ہندوستانی ،مذہبی قدامت پسندی کی گرفت میں

   

رام پنیانی
اُترپردیش کے کانپور میں ایک ہندو خاتون نے اپنے مسلم شوہر کے خلاف یہ الزام عائد کرتے ہوئے شکایت درج کروائی کہ اس نے اس کا مذہب زبردستی تبدیل کروایا۔ خاتون کی اس شکایت کے بارے میں بعد میں حقائق سامنے آئے کہ اس نے اپنی مرضی و منشاء سے مسلم شوہر کے خلاف شکایت درج نہیں کروائی تھی بلکہ ہندوتوا کے گروپوں نے اسے اپنے تیار کردہ ایف آئی آر پر دستخط کیلئے مجبور کیا تھا۔ انہی کے دباؤ پر وہ پولیس اسٹیشن گئی تھی۔ ابتداء میں اگرچہ اس خاتون نے ہندوتوا گروپوں کے ڈر سے ایف آئی آر پر دستخط کی لیکن بعد میں یہ کہتے ہوئے اپنے بیان سے منحرف ہوگئی کہ جارحانہ ہندو قوم پرست گروپوں نے اسے مسلم شوہر کے خلاف شکایت درج کروانے کیلئے مجبور کیا تھا۔ بٹوا شرما اور احمر خان کے مطابق ہندو قوم پرست گروپ اترپردیش میں بین مذہبی جوڑوں کو توڑنے اور مسلم دشمنی سازشی نظریہ کے پروپگنڈہ کی خاطر مذہبی تبدیلی کے خلاف متعارف کردہ قانون کا استعمال کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اُترپردیش کی یوگی حکومت نے انسداد تبدیلی مذہب قانون منظر عام پر لایا ہے۔ بٹوا شرما اور احمر خان اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ اترپردیش جیسی ریاست میں ہندو قوم پرست گروپ کئی دہوں سے ماورائے دستور سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ وہ بین مذہبی رشتوں میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر مسلم مردوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ پچھلے سال یعنی 2020ء میں حکومت اترپردیش نے غیرقانونی مذہبی تبدیلی آرڈیننس سامنے لایا۔ یہ ایسا قانون ہے جو ہندو۔ مسلم مرد و خواتین کی شادیوں کو کھلے طور پر منع نہیں کرتا، لیکن نام نہاد قوم پرست ہندوتوا گروپس پولیس کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے اس قانون کا استعمال کرتے رہتے ہیں تاکہ بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں کو ہراساں کیا جائے اور خاص طور پر ہندو لڑکیوں اور خواتین سے شادی کرنے والے مردوں کو مقدمات میں پھانسا جائے۔ آپ نے دیکھا کہ گزشتہ چند دہوں کے دوران لو جہاد کے نظریہ یا رجحان کو آگے بڑھایا گیا۔ اس کا مقصد معاشرے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا اور خواتین و لڑکیوں کی اپنی زندگی میں خودمختاری کے حصول پر روک لگانا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں مردوں کی اجارہ داری سے متعلق جارحانہ ایجنڈے کو فرقہ وارانہ سیاست کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں ان فرقہ پرست طاقتوں کیلئے بین مذہبی شادیاں اور تبدیلی مذہب معاشرے کو تقسیم کرنے کا ایک طاقتور آلہ ہے۔ صرف اسی طریقے سے معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری کے اقدار نہیں دیکھے جاسکتے ہیں بلکہ تبدیلی مذہب کے باعث مذہبی طور طریقوں پر چلنے کے ساتھ ساتھ بین مذہبی شادیوں کی بھی مخالفت کی گئی اور کی جارہی ہے۔ اس معاملے میں صرف اور صرف بین مذہبی جوڑے متاثر ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ اَنکت سکسینہ کو صرف اس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ ایک مسلم لڑکی سے محبت کرتا تھا اور اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن لڑکے کے ارکان خاندان کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کی شادی انکت سے ہو چنانچہ ان لوگوں نے انکت سکسینہ کو قتل کردیا۔ حال ہی میں کشمیر سے ایک خبر آئی جہاں دو سکھ لڑکیوں نے مسلم لڑکوں سے شادی کیلئے اپنا مذہب تبدیل کرلیا۔ ان شادیوں کے بارے میں یہ الزامات عائد کئے گئے کہ لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا لیکن ان لڑکیوں نے کھلے طور پر یہ بیان دیا کہ ان لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا۔ بعد میں ان دو میں سے ایک لڑکی کو ایک سکھ لڑکے سے شادی کیلئے مجبور کیا گیا۔ دوسری سکھ لڑکی دھنمیت نے اپنے مسلم ہم جماعت سے شادی کیلئے مذہب تبدیل کیا۔ بعض رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ بین مذہبی جوڑا فرار ہے اور اس بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں معلوم۔ انہوں نے سکھ کمیونٹی کے ردعمل سے بچنے کیلئے راہ فرار اختیار کی۔ سکھ کمیونٹی ، سکھ لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سرینگر اور دوسرے مقامات میں سڑکوں پر نکل آئی اور یہ الزام عائد کیا کہ ان کی لڑکیوں کا اغوا کیا جارہا ہے۔ ان کا مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے اور مسلم لڑکیوں سے ان کی شادیاں کی جارہی ہیں۔ دھنمیت نے اس دوران ایک ویڈیو جاری کیا جس میں دھنمیت نے بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے دامن اسلام میں پناہ لی ہے اور اس کی شادی باہمی رضامندی سے ہوئی۔ ان واقعات میں ہم یہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ شادیاں فرقہ وارانہ سیاست کے اطراف و اکناف گھوم رہی ہیں بلکہ اس طرح کے جو بھی واقعات پیش آرہے ہیں، اس کیلئے جو حقیقی خاطی ہے، وہ فرقہ وارانہ سیاست بھی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ عرصہ کے دوران پیو ریسرچ کی جانب سے منظر عام پر آئے حقائق کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت بلالحاظ مذہب، مذہبی روایات اور رسوم و رواج سے بندھی ہوئی ہیں۔ پیو ریسرچ نے اس اسٹڈی کا اہتمام 26 ریاستوں اور 17 زبانوں میں کیا۔ جائزہ میں 30 ہزار لوگوں کے انٹرویوز لئے گئے۔ اگرچہ اسٹڈی کا نمونہ زیادہ بڑا نہیں تھا پھر بھی اس نے ہندوستانی عوام اور معاشرے پر مذہب کی سخت گرفت کا اشارہ دیا ہے۔ اس جائزہ کے مطابق 80% مسلمانوں اور 64% ہندوؤں کا یہ احساس ہے کہ لوگوں کو اپنے مذہب کے باہر شادی کرنے سے روکنا بہت اہم ہے۔ اسٹڈی میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی ہندوؤں کیلئے مذہبی اور ہندوستان کی قومی شناخت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ممتاز ادیب لیبو ڈیسیکو لکھتے ہیں کہ ہندوستانی مذہبی ایثار و خلوص کے بارے میں پرجوش اظہار خیال کرتے ہیں لیکن بین مذہبی شادیوں کے بارے میں ان کا نقطہ نظر کچھ اور ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی علیحدہ ہیں۔
جہاں تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شادیوں کا معاملہ ہے، عام طور پر قدامت پسند خاندان اس کے مخالف رہے ہیں اور اب ایسے قوانین ہیں جو بین مذہبی شادیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور یہ قوانین بی جے پی کے زیراقتدار ریاستوں میں متعارف کئے گئے ہیں۔ ان قوانین کے ذریعہ تبدیلی مذہب کے سلسلے کو روکنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ تبدیلی مذہب کے جو قوانین بنائے گئے ہیں، اس کے بارے میں بتایا گیا کہ ان قوانین کے ذریعہ زبردستی اور دھوکہ سے مذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ان قوانین میں بالواسطہ طور پر بین مذہبی شادیوں کی مخالفت نہیں کی گئی۔

بحیثیت مجموعی کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ملک میں بین المذہبی شادیوں کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں اور اعداد و شمار کے لحاظ سے ہندوستان یا دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک میں ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہوسکتی۔ امریکہ جیسے انتہائی سکیولر ملکوں میں 2010ء اور 2014ء کے درمیان جن بین مذہبی جوڑوں نے شادیاں کیں، جملہ شادیوں میں ان کا تناسب 40% رہا لیکن 1960ء سے پہلے وہاں بین مذہبی شادیوں کا تناسب صرف 19% رہا۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جن ممالک میں معاشروں پر مذہب کی گرفت مضبوط نہیں ہے اور سکیولرازم کا عمل متوازی چلتا ہے، وہاں بین المذہبی شادیاں عام ہیں۔ خاص طور پر عصری جمہوریتوں میں بین مذہبی شادیوں کا رجحان زور پکڑتا جارہا ہے۔ ان ملکوں میں معاشرہ کی جاگیردارانہ ساخت کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ بہرحال بین مذہبی شادیوں کی مخالفت کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ اور دوسری مذہبی قدامت پسندی کے ذریعہ مخالفت۔ اور ان دونوں مخالفتوں کا یکساں نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ دونوں کی ہراسانی اس طرح کی شادی کو جرم بنادینا، مرد کو سزا دینا جبکہ لڑکی کی شادی اپنے مذہب کے کسی شخص سے گرادینا۔ یہی لڑکی کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کیرالا جیسی ریاست میں ایک ایسا یوگا سنٹر قائم کیا گیا جہاں غیرہندو مردوں کی بیویوں یعنی ہندو لڑکیوں کو واپس لایا جاتا۔ اس سنٹر کا مقصد یہی ہے کہ غیرہندو مردوں سے شادی کرنے والی لڑکیوں کو دوبارہ ان کے خاندانوں میں واپس لایا جائے۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ فرقہ پرستی کے عروج اور اس کے ذریعہ شروع کردہ لو جہاد مہم کا قدامت پسندانہ، مذہبی عقائد پر گہرا اثر پڑا ہے۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ نسلی منافرت پر مبنی سیاست کے عروج کے دوران قدامت پسندی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بین مذہبی شادیوں کی مخالفت کی ان دو قسموں کے درمیان مشترکہ پہلو پایا جاتا ہے وہ معاشرے میں مردوں کی اجارہ داری سے متعلق اقدار کا پیدا ہونا ہے جہاں ایک ہی تصور پایا جاتا ہے کہ خواتین کی زندگی پر کنٹرول مردوں کے ہاتھ میں ہو۔ ویسے بھی ہندوستان میں ہمیشہ سے ہی مردوں کی اجارہ داری رہی، کیونکہ یہاں یہ مذہبی عمل کا حصہ بھی ہے۔ ہندوستان میں سکیولرازم ہونے کے باوجود مذہب کی گرفت بہت مضبوط ہے اور سکیولرازم بہت کمزور ہے۔ جیسے جیسے آزادی، مساوات اور اُخوت کے ساتھ قومی تحریک آگے بڑھتی جارہی ہے ، ویسے ویسے مذہبی قوم پرستی اس کی شدت سے مخالفت کررہی ہے اور وہ شاندار قدیم روایات کی وکالت کررہی ہے جس کا مطلب ذات پات ، صنف کی درجہ بندی اور مردوں کی بالا دستی ہے ۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو سے پوچھا گیا کہ جدید ہندوستان کی تعمیر میں انہیں کن بڑے چیلنجس کا سامنا ہے ؟ تب نہرو نے فوراً جواب دیا تھا کہ ہمارے پاس سکیولر دستور تو ہے لیکن معاشرہ مذہبی گرفت میں ہے، انہوں نے کتنی سچ بات کہی تھی!