ہندوستانی اسکولوں میں بحران سرپرست فیس ادا کرنے سے قاصر

   

برکھا دت

ایک ایسے وقت جبکہ ساری دنیا اور بالخصوص ہندوستان کورونا وائرس کی گرفت میں ہے تعلیمی شعبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ تعلیمی شعبہ کے اس بحران پر بمشکل میڈیا یا پھر حکومت نے توجہ دی ہے۔ ایسے بچوں کو جن کی عمریں 10 سال سے کم ہیں انہیں آن لائن کلاسیس سے باہر کیا جارہا ہے اور یہ کام وہ اسکول کررہے ہیں جنہیں انتہائی باوقار اسکولس کہا جاتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ والدین یا سرپرست فیس کی ادائیگی کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں سے میں اس طرح کے والدین یا سرپرستوں کے بارے میں کہانیاں اکٹھا کرنے میں مصروف ہوں۔ دارالحکومت دہلی کے متھرا روڈ پرواقع دہلی پبلک اسکول پر میں نے دیکھا کہ والدین اس اسکول کے باہر مسلسل کئی دن سے کیمپ کئے ہوئے ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔ والدین کے اس گروپ کو اسکول میں داخل ہونے تک نہیں دیا جارہا ہے۔ ایک جوڑے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ خاندان کورونا وائرس کی عالمی وباء سے جوجنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ طالبات کے والد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور ان کا ٹسٹ پازیٹیو آیا، نتیجہ میں پچھلے چند ماہ سے یہ خاندان بڑی مشکل سے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس جوڑے کی دو بیٹیاں ہیں اور دونوں دہلی پبلک اسکول دہلی میں پڑھتی ہیں (ان لوگوں کو خوف ہے کہ نام کے انکشاف سے ان کے بچوں کو اسکول میں شرمندہ کیا جائے گا یا پھر سزا دی جائے گی)۔

والدین کے مطابق دونوں بچوں کو آن لائن کلاسیس سے روک دیا گیا ہے اور ان بچوں کو دوسرے طلبہ کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ جوڑا مزید کہتا ہے کہ کم از کم 250 طلبہ کو فیس ادا نہ کرنے کی بنا آن لائن کلاسیس سے دور کردیا گیا ہے۔ بالآخر اسکول نے اس بات کی تجویز پیش کی ہے کہ کم از کم دو ماہ کی فیس ادا کرنی لازمی ہے۔ بعض اولیائے طلبہ نے جیسے تیسے فیس کا انتظام کرلیا ہے، کچھ نے اپنی بچت کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا ہے اور جن لوگوں نے فیس کا انتظام نہیں کیا ہے انہیں کئی ایک پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو کسی صدمہ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ بچوں کو فیس ادا نہ کرنے پر آن لائن کلاسیس سے محروم کیا جارہا ہے۔ ایسے میں والدین اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ اس کا ان کے بچوں پر کیا نفسیاتی اثر مرتب ہوگا۔ ان بچوں کو نہ صرف آن لائن کلاسیس سے محروم کیا جارہا ہے بلکہ اہم انٹرنل ایگزامس یا داخلی امتحانات لکھنے کی بھی انہیں اجازت نہیں۔ میں نے یہی مسئلہ کئی والدین کی زبانی سنا ہے اور کم از کم نصف درجن والدین نے اسی قسم کی مجبوریوں اور شکایتوں کا اظہار کیا ہے۔
دہلی پبلک اسکول ہی واحد اسکول نہیں ہے جہاں والدین اور اسکول انتظامیہ کے درمیان ایک سنگین جنگ جاری ہے۔ وائبھاؤ گارگ نے جو اترپردیش میں خدمات انجام دیا کرتے تھے جاریہ سال مئی میں ملازمت سے محروم ہوگئے اور مارچ کے اواخر تک اپنی آخری تنخواہ حاصل کی۔ گارگ کی اہلیہ خود اپنا ایک چھوٹا کاروبار چلاتی ہیں اور اس سے بمشکل آمدنی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کے خانگی اسکول انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ صرف ٹیوشن فیس وصول کرے مکمل پیاکیج نہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مسٹر گارگ نے بتایا کہ ماہانہ اقساط کی ادائیگی میں سہولت کے باعث یہ لوگ فیس ادا کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ای ایم آئی بعد میں ادا کرنے کی مدت ختم ہو جاتی ہے تب وہ کسی بھی طرح اسکول کی پوری فیس اور اپنا قرض ادا نہیں کر پائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر آج مجھے ایک لیب ٹاپ خریدنے کی ضرورت ہوتی تو اس کے لئے میرے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ ان کی یہ غم گین کہانی ہمیں یاد دلاتی ہی کہ ہندوستان کے صرف 11 فیصد گھروں میں کوئی کمپیوٹر آلات ہیں، جبکہ کنٹراکٹنگ کمپنیوں تک ڈیجیٹل تقسیم محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ کئی والدین کے لئے منظر عام پر آنا اور اپنے بچوں کی فیس کی ادائیگی کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہے۔ اکثر والدین نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہیں اس بات کی فکر ہے کہ اگر وہ ریکارڈ میں آجاتے ہیں تو پھر اسکول انتظامیہ ان کے بچوں سے اس کا انتقام لے گا اور وہ کسی بھی صلح و صفائی کے موقع سے محروم ہو جائیں گے۔ سرپرست حضرات کہتے ہیں کہ جب وہ سرپرست ۔ ٹیچر اسوسی ایشن گروپس میں خود کو ضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب انہیں ایگزیکٹیوز کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ باوقار مایور کالج میں بھی یہی حال ہے۔ اس لڑائی میں سرپرستوں یا والدین کے فورمس کو اسکول مینیجمنٹ تک رسائی کا کوئی موقع حاصل نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اسکولس کے بھی اپنے مسائل ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر خانگی اسکولس بڑے بڑے تاجرین اور بااثر گروپس کی ملکیت ہوتے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ انہیں اپنے اسٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ناقابل یقین دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں حالات اس وقت بدسے بدتر ہو جاتے ہیں جب ہر ریاست کے اپنے علیحدہ قواعد ہوتے ہیں آیا وہ فیس کی عدم ادائیگی پر بچوں کو آن لائن کلاسیس سے روک دینا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اکثر ریاستوں میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ فیس کی عدم ادائیگی پر بچوں کو آن لائن کلاسیس سے روکا جاسکتا ہے جس طرح حکومت نے کووڈ ۔ 19 متاثرین کے علاج کے لئے خانگی اسپتالوں کے لئے رہنمایان خطوط جاری کئے اور یہ بتایا کہ وہ کتنی فیس حاصل کریں اسی طرح اسکولس کے لئے بھی رہنمایانہ خطوط کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ اکثر امور میں حکومت مداخلت کرے لیکن جب بچوں کو کلاس روم سے باہر کیا جاتا ہے تو ہمیں اس بارے میں معاشرہ اور حکومت دونوں کو چوکس کرنا چاہئے۔