ہندوستانی مسلمان، دائیں بازو کی ہندو اور مسلم تنظیموں کا بن گیا سینڈوچ

   

برکھا دت
ایک ناستک پالادین کے طور پر جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، گزشتہ ہفتہ میں نے سوچا کہ اگر ایک ہندو پیدا ہونے کی بجائے مسلم کی حیثیت سے میری پیدائش ہوتی تو میرا کیا احساس ہوتا۔ خاص طور پر مجھے وہی درجہ اثرو رسوخ اور مراعات حاصل ہوتے جو ایک ہندو کی حیثیت سے پیدا ہونے پر حاصل ہیں۔
کیا میں اب بھی اپنے مذہب سے منہ موڑ پاؤں گی؟ کیا یہ میری تہذیبی اور سیاسی پہچان یا شناخت کا ایک ضروری حصہ ہوگا؟ کچھ معنوں میں مجھے اس بات کا اختیار ہے کہ اپنے مذہب سے لاتعلقی کا اظہار کروں، اس سے دور ہوجاوں یا اسے ترک کردوں کیونکہ اس مذہب میں پیدا ہوئی ہوں جو اکثریتی مذہب ہے۔ اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہندوستانی ہندو کو ایک متاثرہ کی حیثیت سے پیش کرنے کی کتنی سیاسی کوشش کی گئیں لیکن سچائی یہ ہے کہ مذہب یا عقیدت کی بنیاد پر کم از کم مجھے تو بھیدبھاؤ اور امتیاز کے بارے میں کبھی نہیں جانا۔ دراصل مذہب کو مسترد کرنا اسی طرح کی مراعات میں سے ایک ہے جو ہم میں سے ذات پات پر مبنی امتیاز کو مسترد کرنے والوں نے دکھایا ہے یا انہیں کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو ذات پات کی بنیاد پر اپنے حقوق سے محروم کردیئے گئے ہوں اور ذات پات کی بنیاد پر جنہیں معاشرہ میں دباکر رکھا گیا ہو۔ ہم نے ایک ایسی ریاست چاہی ہے جہاں ذات پات کا کوئی جھگڑا اور ذات پات پر مبنی کوئی امتیاز نہ ہو۔ یقینا مذہبی تفریق سے کوئی فرار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی۔ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں نے میرا نام بدل کر برکھا سے برقعہ رکھا ہے تاکہ میری ہمہ جہت سیاست اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب سے متعلق میرے موقف کیلئے مجھے ستایا جائے۔ مجھ پر طنز و طعنوں کے تیر برسائے جائیں۔ ایک طرف ہندو دائیں بازو کی تنظیمیں مجھے ’’برقعہ‘‘ کہتی ہیں اور دوسری طرف ترقی پسند یکساں سیول کوڈ کی وکالت پر مسلم دائیں بازو کی جماعتیں اور تنظیمیں مجھے دائیں بازو کی مدافعت کرنے والی قرار دیتے ہیں۔ میں نے ایسے ترقی پسند یکساں سیول کوڈ کی وکالت کی جو مرد و خواتین میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا جیسے مذہبی ضابطہ اخلاق میں مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ جاریہ ہفتہ جب چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ نے یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا کہ ابا جان کہنے والوں نے راشن چرالیا ہے تب میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے آزاد خیال ہندوستانی مسلمان خود کو الگ تھلگ کئے جانے پر کیا محسوس کرتے ہیں، تاہم بعد میں یہ وضاحت سامنے آئی کہ یوگی ادتیہ ناتھ کے طنز کا مقصد مسلمان نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اکھیلیش یادو تھے۔ جہاں تک ابا جان کا سوال ہے، اگرچہ یوگی ادتیہ ناتھ نے اس کے ذریعہ اپنا سیاسی مقصد پورا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ایسا لفظ ہے جو اکثر مسلمان اپنے والد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سکیولرازم کا نعرہ بھی کمزور پڑتا جارہا ہے اور اس کی کمزوری کی وجہ خود سکیولر جماعتیں ہیں۔ شاہ بانو کیس کے فیصلے کے بعد ہی سکیولر طاقتوں کا زوال شروع ہوگیا۔ شاہ بانو کیس میں مسلم خواتین کیلئے نان نفقہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا اور کانگریس حکومت نے اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا یا قانون میں ترمیم کردی۔ دوسری طرف دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے ہندوستان کی ہمہ جہت تہذیب کی پرواہ نہیں کی۔ اپنی عجیب و غریب حرکتوں کے ذریعہ ان تنظیموں نے مسلم شہریوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا۔ کئی ایسے ویڈیوز وائرل ہوئے جن میں مسلم مردوں کو مارا پیٹا جارہا ہے، انہیں ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ قومی ترانہ گانے پر زور دیا جارہا ہے۔ غرض انہیں ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ تمام واقعات کے ذریعہ سارے ملک کو ان پیام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان محب وطن نہیں اور ہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کے دو ارکان نے اپنے بیان کے ذریعہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ طالبان کی تائید و حمایت کرتے ہیں، لیکن اکثر مسلمانوں کیلئے طالبان کو قبول کرنا، ان کی تائید و حمایت کرنا، ناقابل قبول ہے۔ یہ مسلمان کابل میں دہشت گردوں سے فاصلہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہاں! نصیرالدین شاہ یا جاوید اختر نے اپنے بیان کے ذریعہ ان مسلمانوں کو نشانہ بنایا جو طالبان کی اقتدار پر واپسی سے خوش ہیں، جو طالبان کی تائید کرتے ہیں، حالانکہ دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں نصیرالدین شاہ اور جاوید اختر سے نفرت کرتی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے لو جہاد جیسی اصطلاح اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کرنے پر دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک طرف یہ تنظیمیں جاوید اختر اور نصیرالدین شاہ کی دشمن ہیں، دوسری طرف دائیں بازو کی مسلم تنظیمیں ہیں جن کا ماننا ہے کہ یہ دونوں شخصیتیں کسی بھی طرح سچے مسلمان نہیں۔ جاوید اختر اور نصیرالدین شاہ ممتاز فلمی شخصیتیں ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں تحفظ مل رہا ہے، حالانکہ ان ہی وجوہات کے باعث دونوں کے الفاظ کو بھی بڑی باریکی سے جانچا جارہا ہے۔