ہندوستانی مسلمانوں کو خوداعتمادی اور پیشقدمی کی ضرورت

   

ہندوستان میں شدت پسندو فرقہ پرست عناصر روز بروز اپنی جڑوں کو وسیع اور مضبوط کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ، جس سے ہندوستان کاسیکولر ڈھانچہ کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ ان حالات میں اپنے وطن عزیز سے محبت اور وابستگی کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے بستے ہیں اور جس ملک کو امن کا گہوارہ بنانئے رکھنے کیلئے ہمارے آباء و اجداد نے قربانیاں دی ہیں ، اس سرزمین کو فتنہ و فساد ، ظٔلم و زیادتی ، نفرت و عداوت ، قتل و خون ، تعصب اور جانبداری سے محفوظ رکھنا اور اپنے ملک میں امن و سلامتی، پیار و محبت ، بقائے باہم اور مذہبی رواداری کی فضاء کو ہموار رکھنا ،دیگر ممالک میں اپنے ملک کا نام بلند کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہمارا فرض منصبی ہے ۔
وطن سے محبت فطری اور طبعی چیز ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ہجرت کے موقعہ پر جب غارثور سے سوئے مدینہ روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا : ’’اے مکہ ! تو مجھے تمام مقامات سے زیادہ عزیز ہے ، مگر کیا کروں تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے‘‘۔
امام ذہبی علیہ الرحمۃ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبوب و پسندیدہ شخصیات و مقامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ، ان کے والد حضرت ابوبکر ، حضرت اُسامہ ، حضرت حسنین کریمین ، میٹھا شہد ، جبل اُحد اور اپنا وطن محبوب تھا ‘‘۔
جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کو اپنا وطن و مسکن بنالیا تو چونکہ آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعاء ہوئے : اے پروردگار ! مدینہ کو ہمارے نزدیک محبوب بنادے جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما ۔ ( بخاری و مسلم )
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو یہ ممکن نہیں بلکہ وطن کی ایک ایک شی سے محبت ہوتی ہے ۔ مسلم شریف میں حضور نبی اکرم ﷺ کی دعاء منقول ہے : ’’اے پروردگار ! رتو ہمارے لئے ہمارے کھجوروں میں برکت عطا فرما ، ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما ، ہمارے لئے ہمارے صاع (مخصوص پیمانہ) میں برکت عطا فرما ، ہمارے لئے ہمارے مد (مخصوص پیمانہ) میں برکت عطا فرما۔ اے پروردگار ! یقینا ابراھیم علیہ السلام تیرے بندے ، خلیل اور نبی ہیں اور میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ ابراھیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لئے دعاء کی تھی اور میں مدینہ کے لئے وہی بلکہ اس کے دوچند اضافے کی دعاء کرتا ہوں ۔ ( مسلم شریف )
ہندوستان ہمارا وطن ہے ، اس میں متعدد مذہب و ملت کے ماننے والے موجود ہیں ہم مسلمان اپنی اسلامی تہذیب و شناخت کی حفاظت کی خاطر غیرمسلم تہذیب سے دور رہتے ہیں ان سے میل ملاپ ، تعلقات ، رواداری ، غمخواری ، حسن سلوک ، تیمارداری و دیگر معاملات میں محتاط رہتے ہیں ۔ یہی احتیاط اور دوری نے مسلم اور غیرمسلم ذہنوں میں بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے اور یہ دوری اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اپنی خوداعتمادی میں ضعف و کمی کو محسوس کرتا ہے اور جب اپنی ذات پر یقین ، اپنی تہذیب پر اطمینان اور اپنے نفس میں اسلامیت کا غلبہ محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بھی ملک اور کسی بھی مقام پر ہو دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوئے بغیر اپنی تہذیب و تمدن کے اثرات کو دوسروں کے قلب و دماغ پرنقش کردیتا ہے ۔
اسلام ، غیرمسلمین کے ساتھ عدل و انصاف اور نیک برتاؤ سے منع نہیں کرتا ، بلکہ جہاں بندوں کے آپسی تعلقات اور ان کے درمیان صلہ رحمی اور حسن سلوک کا تعلق ہے تو قرآن مجید نے مسلم اور غیرمسلم کی تفریق نہیں رکھی بلکہ مطلق فرمایا : ’’تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی ، یتیموں کے ساتھ بھی ، اور غرباء و مساکین کے ساتھ بھی اور قریب والے اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ، ہم نشین کے ساتھ بھی اور راہگیر اور مسافر کے ساتھ بھی ، تمہارے غلام و باندیوں کے ساتھ بھی ۔ یقینا اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو اور فخر و غرور کرتا ہو‘‘۔ (سورۃ النساء ۔ ۳۶)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم غیرمسلمین کے ساتھ ملاقات کرتے ، مصافحہ فرماتے ، خیریت دریافت کرتے ، ان کی دعوتوں کو قبول فرماتے ، ان کی مہمان نوازی فرماتے اور ان کی عیادت کرتے ۔ ان کے گھروں میں ان کے برتنوں میں تناول فرماتے ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے دین و مذہب پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے ، اپنے تشخص و امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے ، غیرمسلم برادران وطن و ہمسایہ پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات استوار رکھیں ۔ ایک دوسرے کے قریب ہوں اور ظلم و ستم ، شر و فساد ، فتنہ و شرانگیزی اور بدامنی کے خلاف متحدہ طورپر جدوجہد کریں ۔
سیرت طیبہ کے تابندہ نقوش ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور انھیں ہمت و حوصلہ عطا کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں سیکولر برادران وطن کے ساتھ ملکر شدت پسند و فرقہ پرست عناصر کے ناپاک عزائم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں تاکہ اپنے ملک و وطن کو نفرت و عداوت کے کینسر سے نجات دلاسکیں اور آنے والی نسل کی حفاظت کا سامان کریں۔ تاہم اسلام غیرمسلمین سے اسقدر تعلق سے منع کرتا ہے جس میں مسلمان ان کی تہذیب ، رہن سہن اور طرز معاشرت کو قبول کرتا ہے ۔ اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے ساتھ حسن معاشرت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔