ہندوستان میں اسلاموفوبیا اور عربوں کی برہمی

   

جیوتی ملہوترا
ہندوستان نے ہمیشہ خلیجی ممالک سے خوشگوار تعلقات رکھے ہیں اور بہت ہی محتاط انداز میں خلیجی ممالک سے متعلق اپنی پالیسی بنائی ہے۔ تاہم اس پالیسی کو ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے جوکھم پیدا ہوگیا ہے۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC)، کویتی حکومت، متحدہ عرب امارات کی ایک شہزادی اور عرب دانشوروں نے بعض ہندوستانی باشندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جاری کئے جارہے بیانات اور خاص طور پر کورونا وائرس پھیلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دینے کی روش کی مذمت کی ہے اور یہ مذمت سخت الفاظ میں کی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کے ایک ٹوئٹ پر بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس رکن پارلیمنٹ نے کسی اور کا ٹوئٹ ری ٹوئٹ کیا تھا جس میں عرب خواتین کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا گیا تھا۔

شارجہ، متحدہ عرب امارات میں شامل ایک ریاست ہے وہاں کی شاہی خاندان کی رکن اور خاتون صنعتکار شیخہ ہند فیصل القاسمی نے سب سے پہلے متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے ہندوستانی باشندے سوربھ اپادھیائے کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ سوربھ نے مسلمانوں کے خلاف نسلی منافرت کے ریمارکس کئے تھے اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات کی دوسری شخصیتوں نے بھی کئی ایک ٹوئٹس جاری کئے۔ یہاں تک کہ دوبئی کے ایک موقر انگریزی روزنامہ گلف نیوز نے اتوار کو صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ’’میں اسلاموفوبیا سے پاک ہندوستان کے لئے دعا گو ہوں‘‘۔
شیخہ ہند القاسمی نے اپنے ردعمل میں کچھ یوں کہا تھا ’’میں ہندوستان کو جانتی ہوں یہ گاندھی کا ملک ہے لیکن نفرت اب رکنی چاہئے‘‘ جبکہ کویت کے ایک قانون داں خالد السویفان نے ہندوستان میں تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم سے تعبیر کیا۔ دوسری جانب سعودی اسکالر عابدی ظہر نے یہ مشورہ دیا کہ خلیج میں کام کرنے والے ان تمام انتہا پسند ہندووں کی لسٹ تیار کی جائے جو اسلام، مسلمانوں اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ پھر اس معاملہ میں عمانی شہزادی مونا بنت فہد بھی کود پڑیں اور انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹیاگ کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا۔ تاہم بعد میں یہ پتہ چلا کہ شہزادی مونا بنت فہد سے منسوب بیان غلط تھا اور انہوں نے خود اس کی وضاحت کی۔ شہزادی کے بیان پر عمان میں متعین ہندوستانی سفیر مونو مہاور نے راحت کی سانس لی اور برسر عام شہزادی سے اظہار ممنونیت کیا۔ سوشل میڈیا پر اپنے پیام میں ہندوستانی سفیر کا کہنا تھاکہ میں شہزادی مونا بنت فہد سے ان کی وضاحت پر اظہار تشکر کرتا ہوں جو انہوں نے ان سے منسوب فرضی سوشل میڈیا پوسٹس کے بارے میں کی ہے۔ مرکزی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ہندوستان اور عرب ملکوں کے تعلقات کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے سرگرم ہوگئے اور انہوں نے جمعہ کے دن فون کالس کرنے کا فیصلہ کیا۔ جئے شنکر نے اپنے بیان میں کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہندوستان کے انتہائی گرمجوشانہ تعلقات ہیں اور انہوں نے ساتھ ہی عمانی نائب وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کا ہندوستانی کمیونٹی کا خیال رکھنے پر شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے کہ صرف 8 ماہ قبل ہی مودی کو متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز آرڈر آف زائد پیش کیا گیا۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو بادشاہوں، صدور اور قائدین کو پیش کیا جاتا ہے۔ مودی کو یہ اعزاز دیئے جانے کا مطلب ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ناقابل یقین مثالی تعلقات کا نقطہ عروج پر پہنچنا تھا۔ ویسے بھی متحدہ عرب امارات نے ہر وقت ہندوستان کا ساتھ دیا۔ ہندوستانی ورکروں اور اس کے متوسط طبقہ نے خلیجی علاقہ میں کئی شہروں کو پاور ہاوزس میں تبدیل کرنے میں مدد کی۔ نتیجہ میں انہیں ان کے آجرین نے دولت و محبت دونوں سے نوازا۔ انعامات و اکرامات کی بارش کی۔

شیخہ ہند القاسمی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں متحدہ عرب امارات کے غیر امتیازی سلوک سے متعلق قوانین کے بارے میں بتایا گیا اس کے بعد متحدہ عرب امارات میں متعین ہندوستانی سفیر پون کپور نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ امتیازی سلوک ہندوستان کے اخلاقی دھاگے کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر رہے نودیپ سوری نے پچھلے ہفتہ ٹوئٹ کیا کہ یو اے ای ہندوستان کا ایک اسٹریٹیجک شرکت دار ہے اور یو اے ای ہندوستان کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ یہ ملک نہ صرف ہندوستان کے لئے بیرونی راست سرمایہ کاری کا بہت بڑا ذریعہ ہے بلکہ توانائی کی سلامتی کے شعبہ میں بھی ہندوستان کے ساتھ شریک ہے۔ یو اے ای میں 3.4 ملین ہندوستانی مقیم ہیں جو اپنے ملک کو سالانہ 17 ارب ڈالرس کی خطیر رقم روانہ کرتے ہیں۔

گلف نیوز میں شیخہ ہند القاسمی کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ تناو ہنوز باقی ہے۔ کویت کے سفیر متعینہ ہندوستان نے پچھلے ہفتہ دونوں ملکوں کے تعلقات سے متعلق ایک بیان جاری کیا جس میں کویتی کابینہ کے ایک نوٹ کا حوالہ دیا گیا جو 3 مارچ کو جاری کیا گیا تھا۔ اس نوٹ میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان پر دباؤ ڈالے کہ اقلیتوں کے خلاف اسلاموفوبیا کی لہر روکی جائے۔ کویت کی اپیل پر او آئی سی نے کارروائی کرتے ہوئے بیان جاری کیا جس میں واضح طور پر ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ اقلیتوں کے خلاف جاری مہم پر روک لگائے۔ ہو سکتا ہے کہ دہلی کے با اثر شخصیتیں عرب دنیا میں پائی جانے والی برہمی اور ناراضگی کا نوٹ لے رہی ہوں گی چنانچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ریڈیو پروگرام من کی بات میں رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس ماہ رمضان میں کورونا وائرس سے چھٹکارا حاصل ہونے کی دعائیں کریں۔ جبکہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی اسلامو فوبیا سے متعلق بیانات کی بالراست مذمت کی۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نریندر مودی فیس بک پر سب سے زیادہ فالو کئے جانے والے لیڈر ہیں۔ انہوں نے اس معاملہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمی لیڈر کی جو انہوں نے ساکھ بنائی ہے وہ خطرہ میں ہے۔ حال ہی میں بل گیٹس نے کورونا وائرس سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لئے مودی کی ستائش کی۔ مودی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فی الوقت مسلم مخالف اور ان کے خلاف نفرت و اشتعال انگیز بیانات ہندوستان کی سرحد تک محدود ہیں۔ اگر یہ بیرونی ممالک تک پہنچیں تو کیا ہوگا؟ مودی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ دنیا سب دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں وہ اس معاملہ کو یوں ہی نظرانداز نہیں کرسکتے۔