ہندوستان میں سرمایہ کاری جاری رہے گی

   

سعودی سفیر عزت ماب سعود بن محمد الساطی کا انٹرویو

سیاست فیچر
ہم ہندوستان میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھیں گے کیونکہ تمام شعبوں میں ہماری اسٹریٹیجک شراکت داری بہت گہرائی تک پیوست ہے۔ ان خیالات کا اظہار ہندوستان میں متعین سعودی سفیر عزت مآب سعود بن محمد الساطی نے کی۔ تیل کی آمدنی میں 50 فیصد کی خطرناک حد تک کمی اور معیشت میں سست روی یا مندی کے باوجود ہندوستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری متاثر نہیں ہوگی۔ مملکت سعودی عرب کے سفیر نے ایک تحریری انٹرویو میں یہ باتیں بتائیں۔
ایک ایسے وقت جبکہ اقوام متحدہ کے ایک ادارہ نے جی ڈی پی (قومی مجموعی پیداوار) متاثر ہونے کے باعث علاقہ خلیج میں 1.7 ملین ملازمتوں میں کٹوتی کی پیش قیاسی کی ہے سعودی سفیر کا کہنا ہیکہ تخیف کے بارے میں جو فکرمندی ہے وہ قبل از وقت ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی حکومت اُن ہندوستانی باشندوں کی ملک واپسی کے لئے حکومت ہند کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے جنہیں اپنے وطن واپسی کی ضرورت ہے۔
سعودی سفیر کے مطابق جہاں تک ہندوستانی طبی پیشہ وارانہ ماہرین کا سوال ہے ان میں سے کئی کورونا وباء کے پھیلنے کے وقت رخصت پر تھے۔ چنانچہ اب سعودی عرب کی حکومت ہندوستانی حکومت سے ان ڈاکٹرس اور طبی ماہرین کی واپسی کو یقینی بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ سعودی سفیر نے یہ بھی بتایا کہ سعودی مارکٹ کے لئے ہندوستانی طبی برآمدات کا سلسلہ بھی جاری ہے یعنی ہندوستانی مارکٹ سے طبی آلات اور ادویات ایکسپورٹ کئے جارہے ہیں۔ سعودی سفیر کے مطابق سعودی جنرل ڈائرکٹوریٹ آف پاسپورٹس نے پہلے ہی یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن ہندوستانی تارکین وطن کے 25 فروری اور 24 مئی کے درمیان ریٹرن اور ایگزٹ ویزوں کی مدت ختم ہوئی ہے ان میں توسیع کردی جائے گی اور اس کے لئے ان تارکین وطن سے کسی قسم کی فیس بھی وصول نہیں کی جائے گی اور ان کے لئے تین ماہ تک اضافی توسیع کا سلسلہ جاری رہے گا۔
سعودی سفیر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مملکت سے کتنے ہندوستانی، ہندوستان واپس ہونے کے خواہاں ہیں اور ان کی واپسی کے لئے سعودی عرب میں کیا انتظامات اور تیاریاں کی گئی ہیں؟ اس کے علاوہ ان تارکین وطن کے قیام و طعام کے لئے حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ تب جواب میں سعود بن محمد الساطی نے بتایا کہ اس طرح کے ورکروں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ اکثر ہندوستانی باشندے جو آنے والے مہینوں میں واپس آنے والے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے معاہدات کی مدت ختم ہوچکی ہے یا شخصی وجوہات کے باعث گھر جانا چاہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایسے معتمرین بھی شامل ہیں جو کورونا وائرس وباء کے پھیلنے کے باعث سعودی عرب میں پھنس گئے تھے کیونکہ پروازیں معطل کردی گئی تھیں۔ سعودی عرب میں ہندوستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد برسر کار ہے اور اس تعداد میں ملک واپس ہونے کے خواہاں افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ یعنی چند ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے آجر سے مختصر مدتی رخصت حاصل کرسکتے ہیں اور لاک ڈاون سے پہلے کی طرح سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد رجوع بہ کار ہو جائیں گے۔ ہم واپس آنے کے خواہاں افراد کی مدد کو یقینی بنانے کے لئے مل جل کر کام کررہے ہیں۔
سعودی سفیر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ گزشتہ ستمبر میں آپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے ہندوستان میں مختلف شعبہ جات بشمول آئیل انفرااسٹرکچر میں 100 ارب ڈالرس مالیتی سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ بنایا آیا کورونا وائرس کے معیشت پر اثرات سے یہ سرمایہ کاری متاثر ہوگی؟ اس بارے میں عزت مآب سعود بن محمد الساطی کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاری کے ان منصوبوں کا اعلان ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے تاریخی دورہ ہند کے موقع پر کیا گیا۔ انہوں نے فروری 2019 میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سرمایہ کاری کے تعلق سے سرمایہ کاری، توانائی، تجارت، سیاسی و سلامتی کے شعبوں میں تعاون و اشتراک سے متعلق وزارتی کمیٹیوں کے اجلاس جلد ہی طلب کئے جائیں گے۔ محمد الساطی کے مطابق آج ہندوستان دنیا کی تیزی سے فروغ پاتی معیشت ہے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک بھی ہے۔ ایسے میں ہم ہندوستان میں سرمایہ مشغول کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہندوستان اور سعودی عرب کے درمیان تمام شعبوں میں مضبوط و مستحکم اور گہرائی تک پیوست اسٹریٹیجک شراکت داری پائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری سے متعلق سعودی عرب کے منصوبہ پٹری پر ہے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آرامکو نے ہندوستان میں اپنی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تاہم آرامکو کے منافع میں (21 فیصد) کمی کے باعث خاص طور پر کیا اثر مرتب ہوگا؟ انہوں نے جواب میں کچھ یوں کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس سوال کا جواب دے دیا ہے سرمایہ کاری کے ہمارے منصوبہ پٹری پر ہیں۔ انٹرویو کے اس نکتہ پر آتے ہی یہ سعودی سفیر سے جب یہ کہا گیا کہ یہ سوال اس لئے پوچھا گیا کیونکہ حال ہی میں سعودی وزیر فینانس محمد الجدعان کا کہنا تھا کہ سرکاری مصارف میں بڑی کٹوتی ہوں گی اور معاشی بحران کے خاتمہ کے لئے بہت ہی سخت اور تکلیف دہ اقدامات کئے جائیں گے؟ تب انہوں نے مختصر سا جواب دیا کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کا سعودی منصوبہ ہنوز پٹری پر ہے۔
آخر میں سعودی سفیر برائے ہندوستان سے یہ سوال کیا گیا کہ او آئی سی نے جس کا ہیڈکوارٹر سعودی عرب میں ہے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستان پر زور دیا کہ وہ اپنی اقلیتوں کا تحفظ کرے۔ بیان میں اسلاموفوبیا کی بڑھتی لہر کے بارے میں بھی بات کی گئی۔ آیا باہمی طور پر اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا؟ اور او آئی سی کے اُس بیان پر سعودی عرب کا موقف کیا ہے؟ تب انہوں نے صرف اتنا کہا ’’میں اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا یہ ہمارے لئے باہمی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔