ہندوستان میں عدالتی نظام تباہی کے دہانے پر

   

ڈاکٹر راہول کمار
213 ویں لاک کمیشن کی رپورٹ کے بموجب 40 لاکھ سے زیادہ چیکس مسترد ہونے کے مقدمات ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور چیکوں کے نئے مقدمات کورونا وائرس کی وباء کی بصیرتوں میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔ کل ہند تاجراتی انجمنوں کے وفاق نے یہ معاملہ ہندوستانی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن کے سامنے ہندوستان میں لاک ڈاون سے پہلے پیش کیا تھا۔ لاک ڈاون کورونا وائرس کی وباء کی وجہ سے نافذ کیا گیا ہے۔ انہوں نے تیقن دیا کہ اس مسئلہ کا تیزرفتار حل دریافت کیا جائے گا لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ مرکزی وزیر فینانس کے ساتھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر سو رہے ہیں۔ ہندوستان میں مسترد ہونے والے چیکوں کے مقدمات کی تعداد روز افزوں ہے۔ رقم کی وصول یابی کی مدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے قومی دارالحکومت دہلی میں ایک شکایت کرنے والے فریق کو دیڑھ سال تک اپنی رقم واپس حاصل کرنے کے لئے عدالت میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ بھی جبکہ شکایت کرنے والا فریق کاغذی دستاویزات جیسے کہ مسلمہ معاہدہ دونوں فریقین کے درمیان رکھتا ہو۔ مسترد شدہ چیک کی نقل وغیرہ بھی اس کے پاس رہنا ضروری ہے۔ پیداوار کنندے اور ہندوستانی تاجر کئی مسائل کا کاروبار کرتے وقت شکار ہیں جس کی وجہ مسترد ہونے والے چیک کے مقدمات ہیں۔ نہ صرف اندرون ملک پیداوار کنندے اور تاجر شکایت کرنے والے قوانین کی عدم موجودگی میں مشکلات کا شکار ہیں بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کار اور حصہ دار بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری سے گریز کررہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ ہندوستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے لیکن بیرونی ممالک کی کمپنیاں دانستہ طور پر ہندوستان میں سرمایہ کاری سے گریز کررہی ہیں۔ نئی دہلی میں مودی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مالیاتی دھوکہ دہی ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اور بیرونی ممالک کے سرمایہ دار اس رجحان سے متاثر ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بے شک صاحب بصیرت ہیں لیکن ہندوستان میں تجارت کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ ہندوستان کے بدعنوان ہونے کی وجہ سے ہر قسم کا کاروبار ختم ہو جاتا ہے۔ سست رفتار عدلیہ کا نظام پورے سفر کے ساتھ اعلان کرچکا تھا کہ ہندوستان میں تیار کرو لیکن وزیر اعظم نے ان مسائل پر کبھی غور نہیں کیا جن کا ہندوستانی پیداوار کنندوں اور تاجروں کو ہندوستان میں سامنا ہے۔ اپنے ملک میں چیک کا مسترد ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عدالتوں کے سنہری دور میں بھی وہاں پر رقم کی وصولیابی مشکل تھی کیونکہ تاجر مشکلات کا شکار ہو جاتے تھے۔
پچھلے چند سال سے عدلیہ پر اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ خاص طور پر پیداوار کنندے اور تاجروں کو عدالتی نظام پر کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ عام طور پر ہندوستان کی عام آبادی بھی عدالتوں پر بھروسہ نہیں رکھتی، چنانچہ بیشتر صنعت کار نیا کاروبار شروع کرنا نہیں چاہتے۔ وہ ملازمت کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور عدالتی رکاوٹوں کے بغیر زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔
حال ہی میں ایک نوجوان تاجر یوگیش اشوک یاناوا ممبئی نے کورونا وائرس کی وباء سے قبل کئی اشیاء دوبئی کے تاجر سے خریدی تھیں اور انہیں مختلف بینک چیکس مالیتی 16 لاکھ ڈالر حوالہ کئے تھے۔ بعد ازاں یہ چیک جب فروخت کرنے والے تاجروں کی بینک کو پیش کئے گئے تو وہ مسترد کردیئے گئے۔ اس نے مبینہ طور پر تقریباً 50 تاجروں کو جن کا تعلق یو اے ای سے تھا دھوکہ دیا تھا۔ یاناوا بازآبادکاری کی جدوجہد میں ہندوستان پہنچے انہیں 14 دن حیدرآباد میں الگ تھلگ گذارنے پڑے۔
نریندر مودی حکومت اور ان کی بااعتماد ٹیم کو ترقی یافتہ ممالک سے کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا، مثال کے طور پر امریکہ بھی اسے کوئی مدد نہیں دے سکا۔ حکومت اب صرف سماجی صیانتی نمبر پر پابندی عائد کرسکتی تھی۔ اگر کوئی اس نمبر کو کسی تجارت کے لئے استعمال کرتا ان تاریخوں میں جبکہ اس کے چیک مسترد کردیئے گئے تھے یا وہ بینک کو دھوکہ دینے میں ملوث تھا تو اس کے بیوی یا بچوں پر کوئی تجارت کرنے کی پابندی عائد کردی گئی تھی وہ امریکہ کے کسی بینک سے بھی قرض نہیں لے سکتے تھے اور نہ خصوصی صیانتی رعایتیں اس نمبر کے کارڈ کا حوالہ دے کر حاصل کرسکتے تھے۔ کوئی بھی دوسرا اس نمبر کے کارڈ کی نقل حاصل کرکے اسے استعمال کرسکتا تھا۔
امیتابھ کانت جو نیتی آیوگ کے نائب صدر نشین ہے ایجادات پسند کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مودی حکومت کے پاس ایجادات میں سہولت پیدا کرنے کے لئے کتنی رقم موجود ہے۔ کیونکہ یہ حکومت دیوالیہ ہوچکی ہے۔ ہندوستان میں کسی کو بھی ممنوع کردینے کے طریقہ سے مجرم بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے اثاثہ جات جو کارکرد نہ ہوں اس نظام میں بڑھتے ہیں لیکن وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ مودی حکومت قابل تعریف ہے۔ ہندوستان کو بہادر عہدہ داروں کی ضرورت ہے جو کسی بھی وزیر سے بھی یہ سوال کرنے کی ہمت رکھتے ہوں جو پالیسی فیصلے کے نفاذ میں کسی شخص کے مفاد کو ملک کے مفاد پر ترجیح دیتا ہو۔
ہندوستان اس وقت تک خود مکتفی ملک نہیں بن سکتا جب تک کہ نریندر مودی حکومت عدالتی نظام میں اصلاحات نہ کرے۔ بہ صورت دیگر عدلیہ کا نظام تباہ ہو جائے گا۔ مسترد ہونے والے چیکس کے مقدمات پر وقت اور توانائی پر قابو پانا ہوگا تاکہ اس سے عدلیہ کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ اسے چاہئے کہ تاجر برادری کا اعتماد بحال کرے۔
چنانچہ بحیثیت ہندوستانی شہری میں نریندر مودی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنا باقی بچاہوا 4 سال کا وقت ضائع نہ کرے اور گہری نیند سے اٹھ کر ہندوستان کی تاجر برادری کا تحفظ کرے۔ نریندر مودی حکومت کو دھوکہ دہی کی روایت کو نہ صرف کچلنا ہوگا بلکہ مالی دھوکہ دہی کو اپنا مقصد حاصل کرنے کی اجازت نہ دینی ہوگی۔ اس صورت میں ہی ہندوستان ایک خود مکتفی ملک بن سکتا ہے۔