ہندوستان کو نقصان پہنچانے والے عناصر آزاد کیوں

   

عامر علی خاں
نیوز ایڈیٹر سیاست
دھرم سنسد میں کیا ہوا؟ صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف بکواس کی گئی۔ مذہب کے نام پر ان کے قتل عام پر اُکسایا گیا۔ ہندو راشٹر کی خاطر مرنے مارنے کی باتیں کی گئیں۔ فوج، پولیس اور بھولے بھالے ہندو بھائیوں سے کہا گیا کہ وہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی اسی طرح نسلی تطہیر کرے جس طرح میانمار میں کی گئی۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا؟ نفاذ قانون کی ایجنسیوں بالخصوص پولیس کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی کہ دھرم سنسد کے نام پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جائے گا۔ شرکاء کو ہتھیار اُٹھانے، جان لینے اور جان دینے کی ترغیب دی جائے گی۔ اس طرح کی ناپسندیدہ اور قوم دشمن حرکتیں یونہی نہیں ہوتیں بلکہ اس کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ خاص منصوبے بنائے جاتے ہیں، سازشیں رچی جاتی ہیں اور اقتدار میں بیٹھے عناصر کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ہندوستانی بھی کہہ سکتا ہے کیونکہ وہ پچھلے سات برسوں سے دیکھ رہا ہے کہ ملک میں کس طرح اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا اور دلتوں پر ظلم و جبر کی حد کردی گئی۔ یہ سب کچھ مودی کے نئے ہندوستان میں ہورہا ہے۔ سنگھ پریوار نے حالیہ عرصہ کے دوران ’’نئے ہندوستان‘‘ کی نئی اصطلاح گھڑ لی ہے اور مودی کے اس نئے ہندوستان میں دھرم سنسد جیسے پلیٹ فارمس وقفے وقفے سے منظر عام پر آرہے ہیں، لیکن ایک بات نہ صرف ہندوستانیوں بلکہ دنیا بھر کے انسانیت نوازوں کو کھٹک رہی ہے کہ آخر اس طرح کی اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ملک کی سالمیت و اتحاد کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے۔ عدالتیں بھی خاموش ہیں، پولیس مجبور ہے، محب وطن ہندوستانی پریشان ہیں۔ گودی میڈیا تو مودی، یوگی، امیت شاہ، بی جے پی کی شان میں قصیدے پڑھنے میں مصروف ہے جبکہ حقیقی قوم پرست میڈیا تو مختلف بہانوں سے ستایا اور دھمکیاں جارہا ہے۔ ناراض آوازوں کو دبانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ یوپی اسمبلی انتخابات میں مذہبی جذبات سے کھلواڑ کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے یوگی نے 80% بمقابلہ 20% کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے جان بوجھ کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ 80% ہندوؤں کا مقابلہ 20% مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں سے ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کو ’’باکسنگ بیاگ‘‘ بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ مودی، یوگی، بی جے پی ایک طرف ہیں، 80% ہندوستانیوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں، دوسری طرف ان 80% ہندوستانیوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ پچھلے ساڑھے سات برسوں کے دوران کونسے اچھے کام ہوئے۔ کتنے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار ملا۔ پٹرول، ڈیزل اور پکوان گیاس کی قیمتوں میں کتنی کمی آئی؟ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کس طرح کم ہوئیں؟ ملک کے چہار سو امن و امان کی صورتحال میں کس قدر بہتری آئی؟ چین سے متصل ہماری سرحدوں کو کیسے مضبوط کیا گیا؟ان سرحدوں پر ہندوستانی سپاہیوں کے تحفظ کیلئے کس طرح مضبوط جال نصب کئے گئے ، ڈھال بنائی گئی؟بدعنوانیوں ، غربت اور جرائم کا کس طرح خاتمہ کیا گیا ؟ ماؤں ، بہنوں اوربیٹیوں کی عصمتوں کا تحفظ کیسے یقینی بنایا گیا۔ اگر ان تمام نکات پر تمام ہندوستانی سنجیدگی سے غور کریں تو پتہ چلے گا کہ مودی کی دونوں میعادوں میں مہنگائی نے تمام ریکارڈس توڑ دیئے، بیروزگاری کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا، فیول اور پکوان گیاس کی قیمتوں میں عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتیں قابل لحاظ حد تک گرنے کے باوجود ہمارے ملک میں ان کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ دالوں اور خوردنی تیلوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوگئیں۔ سبزیوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بعض سبزیاں ایسی ہیں جن کو خریدنے کا غریب خاندان سوچ بھی نہیں سکتے۔ علاج انتہائی مہنگا ہوگیا ہے، لوگ دواخانوں میں جانے کے بجائے غربت کا شکار اپنے گھروں ہی میں دَم دوڑ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کورونا وائرس اور اس کے مختلف اقسام کے خلاف بھی ہم لڑ نہیں پائے۔ نتیجہ کیا نکلا، پانچ لاکھ سے زائد اموات! عالمی اداروں نے ان اموات کی تعداد کئی گنا زیادہ بتائی ہے۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے دھرم سنسد کی جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان کے خلاف انتہائی ناشائستہ الفاظ استعمال کئے گئے۔ فحش کلامی کی گئی، اور پھر 80% بمقابلہ 20% کی رَٹ لگانے والے یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے سرپرستوں نے دیکھا کہ کس طرح عالمی سطح پر ہمارا وطن عزیز بدنام و رسواء ہوا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسے ملکوں کے موقر اخبارات اور میڈیا نے اس بارے میں کھل کر لکھا اور سوال اُٹھایا کہ نریندر مودی حکومت کیا کررہی ہے؟ بہت ہی چیخ و پکار کے بعد گندے کیڑے مکوڑوں میں سے ایک کیڑے کی گردن دبوچنے کی ایکٹنگ کی گئی۔ فی الوقت ملک میں مذہب کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ پانچ ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ہورہا ہے۔ بی جے پی فی الوقت اپنے سر پر مغربی بنگال کی شرمناک شکست کی بدنامی کا ٹوکرا لئے ہوئے ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کسی بھی حال میں اترپردیش اس کے ہاتھ سے نہ نکلے لیکن حالیہ سیاسی تبدیلیوں نے خاص طور پر دلت اور او بی سیز (دیگر پسماندہ طبقات) کے بااثر وزراء اور ارکان اسمبلی نے بی جے پی کو خیرباد کہہ کر اکھیلیش یادو کی سماج وادی پارٹی (ایس پی) میں شمولیت اختیار کی۔ اس طرح بی جے پی کو اترپردیش میں الیکشن سے پہلے ہر روز کوئی نہ کوئی جھٹکہ لگ رہا ہے جس سے ایسا اشارہ مل رہا ہے کہ ہندوستان اب بدل رہا ہے اور سات برسوں کی نحوست سے چھٹکارہ پانے کا خواہاں ہے۔ ویسے بھی پولیٹکس میں ’’آیا رام، گیا رام‘‘ کا موسم آتا رہتا ہے، ہاں ایک اور بات یہ ہے کہ اب سکیولرازم کی معنی و مطالب بھی بدل گئے ہیں۔ اس سلسلے میں میں آپ کو بتاؤں کہ شیوسینا نے جب سے بی جے پی سے ناطہ توڑا ہے اور دہلی کے اقتدار پر اروند کجریوال نے قبضہ کیا ہے، تب سے سکیولرازم کی اصطلاح ایک طرح سے بدل گئی ہے۔ ہندوستان کی ہر دوسری پارٹی سکیولر اور بی جے پی کمیونل بن کر رہ گئی۔ یہاں کے نیتا وہاں اور وہاں کے نیتا یہاں کا ماحول چل رہا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اس بی اماں کو بھول جاتے ہیں جس نے ہندوستان کی آزادی کیلئے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد شوکت علی جیسے فرزندوں کو جنم دیا ہے۔ بابائے قوم نے بی اماں کو ’’ہندوستان کی امی جان‘‘ یا ’’مدر انڈیا‘‘ یا ’’بھارت ماتا‘‘ کہا تھا۔ بی جے پی جب یہ نعرہ لگاتی ہے تو اپنے ناپاک عزائم اس کے پیش نظر ہوتے ہیں، لیکن اروند کجریوال یہ نعرہ لگاتے ہیں تو ان کی زبان سے یہ نعرہ سکیولر لگتا ہے۔ شاید یہ اس لئے ہے کیونکہ سنگھ قائدین کے بنسبت اروند کجریوال بنیادی طور پر ایک اچھے انسان ہیں۔ خیر! آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ اترپردیش کی 80 پارلیمانی نشستوں میں سے 62 پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ 5 ارکان پارلیمنٹ کا تعلق سماج وادی پارٹی اور 10 کا بی ایس پی سے ہے۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے 4 کروڑ، بی ایس پی نے 1.6 کروڑ، ایس پی نے 1.5 کروڑ ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ آر ایل ڈی اور اس کے چھوٹے اتحادی جماعتوں نے 1.5 کروڑ ووٹ لئے تھے۔ آئندہ ماہ اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی صورتحال کو فرقہ وارانہ موڑ دینے کی خواہاں ہے مگر عوام اس کے خلاف ہوگئے ہیں۔ شاید اس لئے کہ بی جے پی وکاس (ترقی) کو ہنوز ڈھونڈنے میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔ داڑھی، ٹوپی، بیف، رام مندر بہت ہوگیا، عوام کو اندازہ ہوچکا ہے کہ پٹرول 110 روپئے فی لیٹر کے طور پر فروخت کیا جارہا ہے، پکوان گیاس کی قیمتیں تقریباً 1000 روپئے ہوگئی ہیں، بار بار لاک ڈاؤن نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، کورونا نے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب عوام بی جے پی کی ناک میں دم کرنے میں موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔
موبائیل کا شوق
ہندوستان میں دنیا کی آبادی کا 17.7% حصہ بستا ہے جبکہ عالمی اراضی میں سے ڈھائی فیصد اراضی ہندوستان میں ہے۔ آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان ایک بہت بڑی کنزیومر مارکٹ ہے اور اس مارکٹ کا سب سے زیادہ فائدہ مواصلاتی اور آئی ٹی کمپنیاں اٹھا رہی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانیوں نے موبائیل فونس پر جو اوسط وقت گذارا ہے وہ 70 ہزار گھنٹے ہیں۔
اپنی بات
آپ کو یاد ہوگا کہ حکومت ِ تلنگانہ نے مسلمانوں کی حالت ِ زار معلوم کرنے کمیشن آف انکوائری بٹھائی تھی۔ سنٹر فار گڈ گورینس نے دہلی اور شہری علاقوں میں یہ کام کیا ہے۔ 4,348 گھروں کا سروے کیا گیا جس میں 3,131 ہندو اور 1,067 مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں کے گھر شامل ہیں۔ اس سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ مسلمان معاشی ضرورتوں پر توجہ دینے کیلئے ترک تعلیم پر مجبور ہیں۔ غربت نے روزگار کی طرف ڈھکیل دیا۔ مسلمانوں کے گھر کچے زیادہ اور پکے کم ہیں۔ مسلمانوں کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم علاقوں میں بینکس اور قرض و کریڈٹ کی سہولتیں نہیں ہیں۔ اس سروے میں بتایا گیا کہ 73.3% مسلمان بی سی (ای) زمرے میں شامل ہیں۔ جبکہ 2.1% فیصد لداف ہیں اور مابقی 24% کیلئے کوئی تحفظات کا کوٹہ نہیں۔ مسلمانوں میں 66% شیخ ہیں، ایک اوسط مسلم خاندان میں 5.5 لوگ ہیں۔سید کا تناسب 11.5% اور پٹھان 16.12% ہیں۔ جو مسلمان بچے اسکول نہیں جاتے ان کی تعداد 78% ہے۔ اُردو میڈیم مدارس کی حالت میں انتہائی ابتر ہے۔ جونیر اور ڈگری کالجس نہ ہونے کے باعث بے شمار طلبہ نے تعلیم ترک کردی ہے۔ مسلم بچوں نے غیرمسلم بچوں کی بنسبت انگریزی میڈیم کو زیادہ اپنایا ہے۔ دیہی علاقوں میں کئی مسلمانوں نے تلگو میڈیم ذریعہ تعلیم کو اپنالیا۔ جبکہ مدارس اور اردو میڈیم اسکولوں سے مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہوا۔ مسلمانوں کو خانگی تعلیمی اداروں سے بھی فائدہ ہوا۔ 42% مسلم طلبہ خانگی اسکولوں اور کالجس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ 37% مسلم لڑکیاں اور 27 فیصد لڑکے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔