ہندوستان کو 56 انچ کے سینے کی نہیں قابل ذہن کی ضرورت

   

محمد ریاض احمد
چھتیس گڑھ ہندوستان کی ایک پسماندہ ریاست ہے جہاں کے لوگوں میں تعلیم کی بھی کمی پائی جاتی ہے۔ اس ریاست کا ایک ضلع سورج پور ہے۔ سورج پور کے جنگلاتی علاقہ میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ ہے جو زمین پر پڑے ایک اور ہاتھی کو گھیرے ہوئے ہے۔ محکمہ جنگلات کے عہدہ داروں کی ہمت نہیں کہ وہ ہاتھیوں کے اس جھنڈ کے قریب جائیں اور ان کے گھیرے میں جو ہاتھی زمین پر پڑا ہوا ہے اسے وہاں سے لے جائیں۔ دراصل ہاتھیوں کے اس جھنڈ کے درمیان جو ہاتھی پڑا ہوا ہے وہ مر چکا ہے اور اس کے ساتھی ہاتھی اپنے دوست کی موت کا غم منا رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے عہدہ دار مردہ ہاتھی کو پوسٹ مارٹم کے لئے لے جانے سے قاصر ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کے اس قدر سنگین حالات میں کیا جانوروں میں انسانیت کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ کورونا وائرس وباء کے پھوٹنے کے بعد ہندوستانیوں نے کئی ایسے مناظر دیکھے ہیں جس میں انسان تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے، لیکن دوسرے انسانوں کو اور نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ان کی کوئی پرواہ تھی جس کا اندازہ اورنگ آباد۔ جالنہ کے درمیان ریلوے پٹریوں پر لاک ڈاون کے دوران 16 مزدوروں کی ہلاکت سے لگایا جاسکتا ہے۔ 16 مزدور کئی میل مسلسل پیدل چلنے کے باعث اس قدر تھک گئے کہ پٹریوں پر ہی وہ نیند کی آغوش میں جاپہنچے اور ایک لمحہ ایسا آیا کہ مال گاڑی انہیں کچلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوگئی۔ حد تو یہ ہے کہ ان کے جسموں کے اس قدر زیادہ تکڑے ہوئے کہ ان کے ساتھ موجود روٹیوں کے ٹکڑے بھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان مزدوروں کے خاندانوں کو جو معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا اس کے بارے میں آپ جان کر حیرت زدہ ہو جائیں گے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کیا ہمارے عظیم ملک میں ایک مزدور کی جان کی قیمت صرف 2 لاکھ ہے۔ ہاں … یہی حقیقت ہے ۔ مرکزی حکومت نے ان مزدوروں کے خاندانوں کو فی کس دو لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا۔ اس واقعہ اور چھتیس گڑھ میں ہاتھی کی ہلاکت کے واقعہ سے اندازہ ہوگا کہ انسانیت اب انسانوں کی نہیں بلکہ حیوانوں کی خوبی بن گئی ہے۔ جب ہاتھی کا ذکر نکلا ہے تو آپ کو یہ بھی بتادیں کہ جنوبی ہند کی ریاست کیرالا کے پال گھاٹ میں ایک بھوک کی ماری حاملہ ہتھنی بارود سے بھرا انناس کھاکر فوت ہو جاتی ہے(اس علاقہ کے کھیتوں میں جنگلی سوروں کے خوف سے لوگ انناس اور دوسرے میووں میں بارود بھر کر رکھ دیتے ہیں تاکہ جنگلی سور انہیں کھا کر فوت ہو جائیں)۔

بہرحال حاملہ ہتھنی کی ہلاکت کے بعد سارے ملک میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے کابینی رفقاء تلملا اٹھتے ہیں۔ رتن ٹاٹا جیسے صنعت کار بے چین ہو جاتے ہیں۔ اس واقعہ سے وہ اس قدر مجروح ہو جاتے ہیں کہ میڈیا میں ایک طرح سے تعزیتی پیام جاری کردیتے ہیں۔ فلمی اداکار، صنعت کار، تاجرین، سیاسی قائدین سب کے سب ایک حاملہ ہتھنی کے فوت ہونے پر غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں لیکن میرے خیال میں وہ لوگ نہ صرف غم سے نڈھال ہوئے بلکہ اندھے بھی ہوگئے تھے کیونکہ ان تمام کو ایک حاملہ ہتھنی کی موت تو نظر آئی لیکن 13 اپریل سے جیل میں بند ایک 27 سالہ حاملہ ریسرچ اسکالر نظر نہیں آئی۔ پتہ نہیں ان تمام کی عقلیں اندھی ہوگئیں یا پھر حقیقت میں وہ بصارت سے محروم ہوگئے۔ ایک انسان رہتے ہوئے بھی انہیں ایک حاملہ ہتھنی کے ہلاک ہونے کا پتہ چل جاتا ہے جس پر وہ تڑپ جاتے ہیں لیکن دو سے زائد ماہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی صفورہ ذرگر کی حالت زار انہیں دکھائی نہیں دیتی۔

اگر وزیر اعظم نریندر مودی، امیت شاہ، پرکاش جاوڈیکر یا مینکا گاندھی حاملہ ہتھنی کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے تو الگ بات ہوتی لیکن رتن ٹاٹا جیسے صنعت کار نے حاملہ ہتھنی کو تو یاد رکھا اور صفورہ ذرگر جیسی حاملہ جہدکار کو بھلا دیا تب ہمیں افسوس ہوا اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا انسان اس قدر گرچکے ہیں اور ان میں حیوانیت و درندگی اس قدر سرائیت کر گئی ہے کہ وہ انسانوں سے ہمدردی کی بجائے جانوروں سے ہمدردی کرنے لگے ہیں۔ بے شک آپ جانوروں سے بھی ہمدردی کریں لیکن انسان کی ہمدردی کا پہلا حقدار دوسرا انسان ہی ہوتا ہے۔ ایک اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حاملہ ہتھنی کی موت پر غم کرنے والوں کو شاید دہلی۔ جئے پور شاہراہ پر وہ مزدور وہ غریب ہندوستانی نظر نہیں آیا جو شدت بھوک سے اس قدر متاثر ہوگیا کہ اس نے وہاں سے گذرنے والی ایک گاڑی کے نیچے آکر ہلاک ہونے والے کتے کا گوشت کھانا شروع کردیا۔ بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو وہ مزدور دکھائی نہیں دیئے جو اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوکر پیدل چلتے چلتے اس دنیا سے چل بسے۔ کئی ایسے واقعات بھی پیش آئے جہاں حادثات میں ہلاک مزدور ماں باپ کی نعشوں پر معصوم بچے آنسو بہا رہے تھے۔ رتن ٹاٹا جیسے صنعت کاروں کو ان یتیم و یسیر بچوں کا غم اور ان کی بے بسی نظر نہیں آئی اور نہ ہی انہیں دہلی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران شاہین باغ کی خواتین سے لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کی پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ بھی دکھائی نہیں دی جس میں کوئی طالب عالم اپنی آنکھ سے محروم ہوگیا تو کسی کا بازو جسم سے علیحدہ کردینا پڑا۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے واقعات چار پانچ ماہ کے دوران ہی پیش نہیں آئے بلکہ پچھلے 6 سے زائد برسوں سے ہمارا جنت نشاں ملک ہندوستان اس سے کہیں زیادہ دردناک واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔ اس عرصہ کے دوران مذہب کے نام پر ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئی مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، اقلیتوں اور دلتوں کی املاک تباہ کی گئی، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے، بستیوں کو جلایا گیا اور یہ سب کس نے اور کیوں کیا ساری دنیا جانتی ہے۔

خیر آج کل امریکہ میں سیاہ فام باشندے جارج فلائیڈ کی سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہلاکت پر ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے کافی چرچے ہیں۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کی حکومت اور ان کے عجیب و غریب فیصلوں کے باوجود جمہوریت باقی ہے۔ تبھی تو کسی شہر کا پولیس سربراہ ٹرمپ کو اپنا منہ بند رکھنے کا مشورہ دیتا ہے تو کسی شہر کا میئر امریکی صدر کو دوبارہ وائیٹ ہاوز کے بنکر میں چھپ جانے کی صلاح دیتا ہے۔ تاہم فلائیڈ کے قتل کے خلاف احتجاج نے ہندوستان میں اور خاص طور پر دہلی پولیس کے متعصبانہ و جانب دارانہ کردار پر ایک سوالیہ نشان اٹھایا ہے جس کے ہاتھوں فیضان جیسا نوجوان شہید ہوا۔ اگر ہم ہندوستانیوں میں انسانیت نوازی اور انصاف پسندی ہوتی تو ہندوستان میں بھی اسی طرح کا احتجاج ہوتا جس طرح آج امریکہ میں فلائیڈ کے قتل کے خلاف جاری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی حکومت جب سے آئی ہے مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف فرقہ پرستوں اور پولیس کے ظلم میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں امریکہ میں تو ایک فلائیڈ ہے جبکہ ہندوستان میں ہزاروں کی تعداد میں جارج فلائیڈ مل جائیں گے جو پولیس ظلم کا شکار ہوئے ہیں اور جھوٹے الزامات میں ماخوذ کئے گئے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستانیوں کو اپنے ملک کی عظیم روایات کی برقراری کے لئے 56 انچ کے سینے کی نہیں بلکہ ایک دوراندیش اور قابل ذہن کی ضرورت ہے جو کسی مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت اور ہندوستانیت کی بنیاد پر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ ایک ایسا ذہن جو دستور ہند کی پاسداری، قانون کی حکمرانی، بدعنوانیوں سے پاک مقننہ دباو سے آزاد عدلیہ و صحافت بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات عوام کی خدمت اور احترام آدمیت کی سوچ و فکر کا حامل ہو۔